چین کے حوالے سے جرمنی کا ‘دوغلا پن‘ تنقید کی زد میں

Merkel in China

Merkel in China

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن چانسلر میرکل پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ چین کی انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھاتیں۔

چانسلر انگیلا میرکل ڈیڑھ دہائی سے جرمنی کی قیادت کر رہی ہیں۔ اس دوران انہوں نے چین اور جرمنی کو قریب لانے کے لیے بیجنگ کے بارہ دورے کیے۔ لیکن جوں جوں چین کی مغرب کے ساتھ کشیدگی بڑھ رہی ہے، میرکل پر تنقید ہو رہی ہے کہ وہ چین کی متنازعہ پالیسیوں کے خلاف سخت موقف اختیار کرنے سے کیوں گریزاں ہیں۔

جرمنی چین کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں رہا ہے، جس کی بڑی وجہ اس کے اپنے معاشی مفادات ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان پچھلے سال 233 ارب ڈالر کی تجارت ہوئی۔ جرمنی چین کے ساتھ سب سے زیادہ تجارت کرنے والا ملک ہے جبکہ امریکا کے بعد یورپی یونین چین کے ساتھ تجارت کرنے والا دوسرا بڑا خطہ ہے۔

ایسے میں جب بھی چین کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق خبریں آتی ہیں تو جرمنی اس کی مذمت میں بظاہر سُستی دکھاتا ہے۔ پھر چاہے معاملہ ایغور مسلمانوں کے ساتھ زیادتیوں کا ہو یا پھر ہانگ کانگ میں چین کے کڑے قوانین متعارف کرنے کی بات، جرمنی چین پر کھل کر تنقید کرنے سے کتراتا نظر آیا ہے۔

ناقدین کی نظر میں شاید یہ دوغلا پن ہو۔ لیکن دراصل یہ سب جرمن حکومت کی پالیسی کے عین مطابق ہے، جس کا نعرہ ہے ”تجارت کے ذریعے تبدیلی‘‘۔

جرمن حکام کے نزدیک اس حکمت عملی کی منطق یہ ہے کہ آپ چین جیسے بڑے ملک سے لڑنے جھگڑنے کی بجائے اس کے ساتھ کاروبار کے فروغ پر توجہ رکھیں، اِس امید کے ساتھ کہ جوں جوں تجارت بڑھے گی، آپ کا اُن پر اثر بڑھے گا اور پھر آپ انہیں سیاسی روش کی اصلاح پر بھی آمادہ کر سکتے ہیں۔

دنیا میں جرمنی کی مایہ ناز کمپنی سیمنز کے سربراہ جو کیزر نے پچھلے سال ستمبر میں جرمن چانسلر میرکل کے دورہ چین کے بعد حکومت کو یہی مشورہ دیا۔ انہوں نے کہا جرمنی پر تنقید کرنے کی بجائے اُس کے ساتھ ”سوچ سمجھ کر اور عزت کے ساتھ‘‘ پیش آنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ، ”اگر چین کے ساتھ متنازعہ معاملات چھیڑنے سے جرمنی میں لوگوں کا روزگار داؤ پر لگتا ہے تو ہمیں اس سے گریز کرنا ہو گا‘‘ اور سب کا موقف سمجھنے کی کوشش کرنا ہو گی۔

لیکن دنیا میں جمہوری حقوق کے داعی ملک کے لیے چین کی مبینہ زیادتیوں پر یوں آنکھیں بند کر لینا بھی آسان نہیں۔ جرمن تھنک ٹینک کونسل آف فارن ریلیشنز سے وابستہ تجزیہ نگار دیدی ٹاٹلوکے مطابق اگر صرف ہانگ کانگ میں چین کی مبینہ زور زبردستی کو دیکھا جائے تو ان کے نزدیک جرمن حکومت کمزوری کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔

ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ “حالیہ مہینوں میں ہانگ کانگ کے لوگ جرمنی کے رویے سے مایوس ہوئے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ جرمنی ان کی توقعات پر پورا نہیں اترا اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ چین کے آگے جمہوریت کے دعویدار ملکوں پر کتنا اعتبار کیا جا سکتا ہے؟‘‘

چین کے حوالے سے جرمنی کے لیے ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان لڑائی کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔ اس تنازعہ میں یورپی ممالک کا کیا کردار ہونا چاہیے؟ اس پر خود یورپی یونین میں بھی ابھی تک اتفاق نہیں اور شاید کئی ممالک اب اس انتظار میں ہیں کہ دیکھتے ہیں کہ امریکا میں نومبر کے صدارتی انتخابات میں کیا ہوتا ہے۔

جرمنی میں بعض سیاسی رہنماؤں کا اصرار ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ چین کے خلاف سخت موقف اپنائے، اس کے ساتھ تجارت پر پابندیوں پر غور کرے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ عالمی عدالت انصاف میں لے جائے۔ اس موقف کی حامی شخصیات کے مطابق تجارت کی خاطر جرمنی کی ”اقدار برائے فرخت نہیں۔‘‘

لیکن جرمنی کی پروفیسر کیتھرین کِنزلباخ کے مطابق صرف جرمنی ہی اس المیے سے دوچار نہیں بلکہ دیگر ملک بھی اس طرح کی مخمصے سے دوچار ہیں۔

ان کے مطابق، ”چین کے حوالے سے تمام ملکوں کو اپنے مفادات سامنے رکھ کر چلنا ہوتا ہے۔ ایسے میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جرمن چانسلر بیجنگ میں کیے جانے والے فیصلے بدل نہیں سکتیں۔ لیکن اگر وہ بولیں تو اس کا بہرحال اپنا وزن ہوتا ہے۔‘‘