اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے مجاہدین اور غازیوں کا مرتبہ کتنا بلند وبالا اور کس قدر عظمت والا ہے اس کے بارے سینکڑوں آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان مردانِ حق کی مدح وثناء کا خطبہ ارشاد فرمایا ہے مگر سورة (العدیت30پ) میں اللہ تعالیٰ نے مجاہدین اور غازیوں کے گھوڑوں کی رفتار ،سموں اور انکی ادائوں کی قسم یاد فرماکر انکی عزت وعظمت کا اظہار فرمایا :ترجمہ”قسم انکی جودوڑتے ہیں سینے سے آواز نکلتی ہوئی پھر پتھروں سے آگ نکالتے ہیں سم مار کر پھر صبح ہوتے تاراج کرتے ہیں پھر اس وقت غبار اڑاتے ہیں پھر دشمن کے بیچ لشکر میں جاتے ہیں بے شک آدمی اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔اس گھوڑوں سے مراد مفسرین کا اجماع ہے کہ مجاہدین اور غازیوں کے گھوڑے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے دربار میں اس قدر محبوب و محترم ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان گھوڑوں بلکہ ان کی ادائوں ،سموں کی قسم کھاتا ہے۔
حضرت ابو ہریر سے روایت ہے کہ میں نے رسولۖ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کون اسکے راہ میں جہاد کرنے والا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی دن کو روزے رکھتا ہے اور رات کو نماز میں کھڑا رہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں کے لیے ذمہ لیا ہے کہ وہ انہیں وفات دے گا توسیدھا جنت میں لے جائے گا ،ورنہ اجر وثواب دیکر اس کے ساتھ مال غنیمت بھی دیکر سلامتی کے ساتھ گھر لوٹا دے گا ۔(صحیح بخاری2787)تاریخ ماں کی کوکھ سے واقعات کا جنم اور انسانی ماں کی کوکھ سے بچوں کی پیدائش نظام قدرت ہے سلطان محمد فاتح ،محمود غز نوی ،سلطان صلاح الدین ایوبی،اور سلطان ٹیپو کے کارناموں کو جنم دینے والی تاریخ ماں اپنے جدید دور میں داخل ہوچکی ہے ۔اس بار تاریخ کی ماں کی کوکھ سے جنم لیکر اسلام دشمن استعمار کو لوہے کے چنے چبوانے والا ایک ”مجاہداسلام” عالمی منظر پر چھا جانے والا تھا کوئی نہیں جانتا تھا یہ وہ اہم دور تھا جب بیسویں صدی کے آخری عشرے میں جدید ازاراں ِ روس کی نظریں گرم پانیوں پر مرکوز تھیں ۔کون جانتا تھا کہ سرگودھا کے ایک غریب گھرانے کے ایک کچے کمرہ میں پیدا ہونے والا یہ بچہ ایک خاص مقصد کے لیے اس دنیا میں آیا ہے کہ مرد حر ُ بڑا ہوکر دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کا غرور خاک میں ملا دے گا اور ”ملت کفر”دنیا کی سپرپاور ”روس”ٹکڑوں میں تقسیم ہوگا۔تاریخ ایسے لوگوں کو کبھی فراموش نہیں کرسکتی جنہوں نے اپنی تاریخ آپ بنائی ہو غازی جنرل حمید گلپاکستان کی تاریخ کا ایسا درخشاں ستارا ہیں جنہیں چاہتے ہوئے بھی اس ملک کی عسکری اور سیاسی قیادت لاکھ مخالفتوں کے باوجود بھی فراموش نہ کرسکے گی۔
افواج پاکستان دراصل ”فوج الٰہی ”ہے یہ حضرت خالدبن ولید کی اولاد،محمد بن قاسم کے ہمرکاب ،طارق بن زیاد کی للکار اور سلطان محمد فاتح کی یلغاز ہے ۔افواج پاک کی سربلندی اسلام اور دفاع وطن کے لیے لازوال قربانیاں اور خدمات قابل ستائش وتعریف ہیں آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں ۔مگر افواج پاکستان میں جو خاص شہرت جنرل حمید گل کے حصے میں آئی ہے وہ بہت کم لوگوں کو ملتی ہے۔اور اسکی وجہ ”جہاد ”تھا جنرل حمید گلنظریہ پاکستان اور پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کے بڑے حامی تھے ۔وہ نظریہ پاکستان کے دفاع میں سیسہ پلائی دیوار بن جایا کرتے تھے ۔یہ ہی وہ وجہ تھی کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دفاع کے سلسلے میں ہرحد کو عبور کرنے کے لیے تیار رہتے تھے ۔یہ راقم الحروف کے لیے بہت بڑے اعزاز کی بات ہے کہ مجھے ایسے عظیم المرتبت مجاہد اسلام غازی اسلام کی قربت کا شرف نصیب ہوتا رہا ہے اور یہ قرابت عرصہ گیارہ سالوں پر محیط ہے اور آج انکے فرزند ارجمندمجاہد ابن مجاہد غازی ابن غازی بطن جلیل محمد عبداللہ حمید گل کی صورت میں قیمتی اثاثہ میرے پاس موجود ومحفوظ ہے ۔اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ان کوپاکستان سے انتہا درجے کا عشق تھا ان کا یہ بھی غیر متزلزل یقین تھا کہ پاکستا ن عالم اسلام کی قیادت کرنے کی مکمل اہلیت رکھتا ہے ۔
انکی سپاہیانہ صلاحیتوں اور عسکری دانشمندی اور انکی فوجی حکمت عملی نے دنیا کو محو حیرت کردیا تھا۔وہ عسکری دنیا میں ایک اہم نام اور دنیائے انٹیلی جنس میں افسانوی شہرت کے حامل جس کو تاریخ کبھی فراموش نہ کرسکے گی۔ جنرل حمید گلدنیائے اسلا م کی عسکری قوت اور اسلام کا ایسا نڈر سپاہی تھا کہ جس کی مثال بڑی مشکل سے تلاشی جاسکے گی۔وہ محض گفتار کا ہی نہیں کردار کا بھی غازی تھا۔اپنے ناقدین کے سخت جملے سن کر بھی خوش دلی سے انکا مدلل جواب بغیر اپنے اوپر جذباتی کیفیت طاری کئے دے دینا انکی اہم خوبیوں میں شامل تھا ۔اکثر ان کے ناقدین ان پر عسکریت پسندی کو ہوا دینے کاالزام لگاتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ مسلم امُہ کے اندر دوعشرے قبل جذبہ جہاد کا شعلہ بھڑکانے والا جری سپاہی ”حمید گل”ہی تھا۔دنیا جانتی ہے کہ روس نے مشرقی پاکستان کو توڑنے میں بھارت کی مددکی تھی ۔روس اور بھارت کا دفاعی معاہدہ تھا جس پر جنگ کے دوران روس گن بوٹز نے پاکستان کے سمندروں کا معاصرہ کیا رکھا تھا پاکستان کی بحریہ مفلوج کیا ۔جنرل حمید گلنے بہترین منصوبہ بندی کرکے افغانستان میں روس سے پاکستان توڑنے کا بدلہ لے لیا اور ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کی چھ اسلامی ریاستیں قازقستان ،ترکمانستان ،کرغزستان ،ازبکستان ،آزربائیجان اور تاجکستان کی شکل میں سفید ریچھ کے معروف نام سے اور دنیا کے نقشے پر سوویت یونین کے نام سے یاد کیا جاتا تھا یہ ریاستیں آزاد کراکے دنیا کے نقشے پر مزید نئے مسلم ملکوں کو وجود بخشنے میں اہم کردار ادا کیا ۔
دیوار برلن بھی ٹوٹی اور اور دنیا میں پھیلایا گیا جھوٹا سلوگن کہ روس جس ریاست میں داخل ہوتا ہے واپس نہیں نکلتا جوذلیل ہوکر افغانستان سے نکل گیا ۔تاریخ نے دیکھا کہ امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی50 سے زائد ممالک بھی افغانستان میں جہاد ہی کی برکت سے پسپا ہوچکے ہیں ۔کاش آج جنرل حمید گل زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ انکی کہی ہوئی ہر بات سو فیصد سچ ثابت ہو چکی ہے اور ہورہی ہے ۔آپ کے تجزیے کا کوئی بھی جملہ بے وزن نہیں ہوتا تھا ۔آپ ہمیشہ پاکستانی قوم کو الرٹ کرتے ہوئے کہا کرتے تھے افغانستان پر روسی حملہ ،افغانستان بہانہ اور پاکستان ٹھکانہ ہے اسی طرح امریکہ کے بارے میں بھی یہی کہتے تھے کہ نائن الیون بہانہ افغانستان ٹھکانہ اور پاکستان نشانہ ہے ۔جنرل حمید گل ہمیشہ یہ الفاظ ببانگ دہل کہا کرتے تھے ”ایک مومن کے لیے سپر پاور صرف اور صرف الہ تعالیٰ کی ذات ہوتی ہے اور میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو سپرپاور نہیں مانتا”آپ کو دینی حلقوں میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔بھارتی راء اور انڈین ملٹری انٹیلی جنس نے جنرل حمید گل کو ہمیشہ حاضر سروس جرنیل سمجھا اور آپ نے خالصتان تحریک کی مدد سے بھارت کی ناک میں دم کردیا تھا ۔
بھارت ،اسرئیل اور امریکہ کے لیے آپ انتہائی سخت جذبات رکھتے تھے ۔بھارتی دارالحکومت دہلی میں موجود صحافی سوسانت سنگھ نے اپنے تجزیے میں لکھا تھا کہ حمید گل نے اپنے دور میں خالصتان تحریک کو اس مہارت سے اٹھایا تھا کہ بھارتی حکومت کی چیخیں نکل گئیں ۔بھارتی صحافی گوتم شرما لکھتا ہے کہ حمیدگل انتہائی بے خوف انسان تھا ۔جنہوں نے بھارت کے ساتھ ساتھ امریکا کی مخالفت بھی مول لی لیکن اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے ۔جنرل حمید گلنے افغانستان میں روسیوں کے خلاف ایک مضبوط مزاحمتی دیوار کھڑی کردی تو دوسری جانب کشمیر اور بھارتی پنجاب میں علیحدگی کی تحریکیں کھڑی کرنے کی کوششوں کا بھی آغاز ہوا جو ان کا ایک اہم قدم تھا ۔تجزیہ نگار گوتم شرما نے تسلیم کیا کہ بھارتی انٹیلی جنس اور افواج کی پلاننگ کو جس قدر جنرل حمید گل نے نقصان پہنچایا ہے اتنا نقصان کسی اور نے نہیں پہنچایا ۔جنرل حمید گل کے بارے میں چند اخبارات نے اسطرح تجزیہ کیا ہے۔”حمید گلدنیا کے خطرناک ترین جنرلز میں سے ہیں ”(امریکی حکومت)حمید گلدنیا کے پانچ بڑے دماغوں میں سے ہیں۔ (سی آئی اے )حمید گلاکھنڈ بھارت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے ۔(انڈین ایکسپریس)جنرل حمید گل کی پالیسیوںکی وجہ سے راء کے چیف نے گھٹنے ٹیک دئیے تھے۔(بھارتی سوشانت سنگھ)حمید گل ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بھارت کے لیے حاضر سروس دشمن ثابت ہوئے ۔(انڈین ایکسپرس )جنرل حمید گلامریکہ اور بھارت پر کھل کر تنقید کرتے تھے اور کشمیر کے بارے میں بھی واضح موقف رکھتے تھے کہ کشمیر بنے گا پاکستان نہیں کشمیر پاکستان ہے اور پاکستان کی شہہ رگ ہے اور کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے ۔
کاش یہ مجاہد اسلام آج زندہ ہوتا تو کشمیر کی صورت حال یہ نہ ہوتی اب تک کشمیر اپنی آزادی کے آخری دور میں شامل ہوچکا ہوتا ۔آپ نے ہمیشہ کشمیریوں کی وکالت کی اور کشمیری آپ کو مسیحا مانتے تھے اور اب بھی مانتے ہیں ۔روس کی شکست کے بعد پاکستان نے بھارت کو واضح پیغام دینا تھا جو راجیوگاندھی کی سربراہی میں پاکستان پر حملے کے لیے پر تول رہا تھا پاکستان نے جنرل حمید گل کی سربراہی میں پاکستانی تاریخ کی سب سے بڑی جنگی مشقیں ضرب مومن کا آغاز کیا جس کی کامیابی کا سہرا بھی آپ ہی کے سر جاتا ہے ۔یہ شخص اس دور سے تعلق نہیں رکھتاتھا ۔یہ معمہ ،کہانیوں اور روایات میں مذکورہ مجسمہ نیکی کے کرداروں کی مانند تھا۔میرے خیال میں یہ اسلام کے اولین دور کے متقی لوگوں کی ایک نشانی اس دور میں بھیجی گئی جس کا نام جنرل حمیدگل تھا ۔اسرئیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے جو موقف آپ کا تھااسکی وجہ سے اسرائیلی یہودی بھی ناخوش تھے اور عالمی صہیونی بھی پریشانی میں مبتلا تھے ۔امریکی پالیسیاں چونکہ صہیونی ترتیب دیتے ہیں اس لیے انہوں نے ہمیشہ ہندوستان کی حمایت کی اور پاکستان کی محالفت کی ۔اسلام اور پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر سازشوں میں مصروف عالمی صہیونیوں کو جنرل حمید گل آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا ۔وہ زندگی کے آخری سانس تک نظریہ پاکستان کے موقف پر قائم رہے اسرائیل کے حوالے سے انکی پالیسی اور موقف بڑا واضح اور دوٹوک تھا ۔
آپ نہ صرف عسکری امور کے ماہر تھے بلکہ سیاسی امور کے بھی ماہر تھے اور اللہ تعالیٰ نے انکو ایسی بصیرت دی تھی کہ وہ دیوار سے دوسری طرف دیکھ سکتے تھے ۔اسلام اور پاکستان سے محبت ان کا وہ اثاثہ تھا جسے وہ کسی صورت گنوانے کے لیے تیار نہ تھے اور فوج سے ریٹائرڈ ہونے کے باوجود برملا اس امر کا اظہار کرتے تھے کہ انہوں نے حلف پاکستان کی حفاظت کا اٹھا رکھا ہے نہ کہ نوکری کا اور ایک فوجی خواہ وہ حاضر سروس ہو یاریٹائرڈ ملک وقوم کی حفاظت کے لیے ہر دو صورتوں میں سربکف رہتا ہے ۔آپ اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام کے حامی تھے اس لیے وہ اکثر کہا کرتے تھے انکی منزل اسلام ہے اسلام آبا د نہیں ۔جنرل حمید گل اس پاک دھرتی کا وہ بطل حریت وسپاہ گری تھا کہ جس نے بطور بریگیڈئر برطانیہ کے عالمی شہرت یافتہ رائل وار کالج کا عسکری کورس یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ ”انگریز کون ہوتا ہے مجھے جنگ سکھانے والا ،وطن کا دفاع اپنی مٹی کے جس فہم سے آتا ہے ،وہ میرے لہوں میںدوڑتا ہے”۔اس دبنگ شخص کو پاکستان کی تاریخ کا سب سے کم عمر لیفٹیننٹ جنرل ہونے کا اعزاز حاصل تھا ۔اس مرد حُر نے ہیوی انڈسٹری ٹیکسلا کا چارج اس پیشہ ورانہ منطق کے ساتھ ٹھکرا دیا تھا ”میں فوج میں ٹینک بنانے کے لیے نہیں بلکہ ٹینک چلانے کے لیے آیا ہوں ،میں کسی فیکٹری کا منیجر نہیں پاکستان کا سپاہی ہوں ۔اس عظیم شخص کے جذبہ حب الوطنی اور جہد ملی پر اس کے بدترین نظریات مخالف بھی رشک کرتے تھے ۔
وہ مقلد سیرت اسلام تھا ۔وہ سنت پیغمبری اور عفوودرگزر کی زندہ مثال تھا ۔جنرل حمید گل اتحاد امہ پر یقین رکھتے تھے ۔اپنی پیشہ وارانہ زندگی سے آخری سانس تک وہ سا لمیت پاکستان ،استحکام پاکستان ،دفاع پاکستان اور بقائے پاکستان کی جنگ لڑنے کے لیے ہمیشہ ایک مجاہد کی طرح میدان عمل میں سرگرم رہے ۔وہ بیک وقت پاکستان کی جغرافیائی ونظریاتی سرحدوں کے نمایاںمحافظوں میں سے ایک تھے۔آپ نے ہمیشہ یاد رکھی جانے والی زندگی گزاری ،اسی لیے کام نام تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔جنرل حمید گلکانام آج بھی دشمنوں کے دلوں میں ہبیت اور لرزہ طاری کردیتا ہے ۔آپ کی ناگہانی وفات پر بھارت ،امریکا سمیت تمام دشمنان اسلام اور وطن نے خوشیوں کے شادیانے بجائے جشن کا سماں تھا کہ آج انکی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ جنرل حمید گل اس دنیا میں نہیں رہے مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے ان کا جانشین ان کا فرزند جہادی باپ کا جہادی بیٹا بطن جلیل محمد عبداللہ گل کی صورت میں موجود ہے اور اس کے علاوہ لاکھوں کی تعداد میں انکے جانثار اور نظریاتی پیروکار ابھی زندہ ہیں ۔برادرم محمد عبد اللہ حمید گل میںجنرل حمید گل کی جھلک دکھائی دیتی ہے ۔وہی شیر کی دھاڑ جس کی ہیبت سے دشمنوں کے کلیجے منہ کو آجاتے ہیں ۔دشمنوںکی صفوں میں ہلچل برپاکرنے والا جس کے انداز تخاطب سے عالم کفر لرزتا ہواور اپنوں کے لیے ابریشم ۔محمد عبداللہ حمید گل اپنے عظیم باپ کے مشن کو مکمل جانفشانی کے ساتھ لیکر آگے چل رہے ہیں ۔مثل شعر یہ فیضانِ نظر تھا یاکہ مکتب کی کرامت تھی سکھاِئے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی