اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) وزیر شہری ہوا بازی غلام سرور خان کو جعلی ڈگری کیس میں پنجاب کے اینٹی کرپشن یونٹ نے بچایا۔
مذکورہ وزیر کے خلاف جب جعلی ڈگری رکھنے کے الزام میں کیس بالکل تیار تھا ۔اینٹی کرپشن یونٹ نے غلام سرور خان کے حق میں مکمل یو ٹرن لیا۔
ان کے خلاف درج ایف آئی آر واپس لے کر بریت کا موقع فراہم کر دیا ۔ایف آئی آر ٹرائل کورٹ میں ڈگری منسوخ کئے جا نے کی رپورٹ داخل کر نے کے بعد دائر کی گئی تھی۔
لاہور ہائی کورٹ نے غلام سرور خان کے حق میں 2017 میں جاری حکم امتناع 10 جنوری 2019 کو واپس لے لیا اور فریقین کو 11 مارچ 2019 کو حتمی دلائل دینے کو کہا ۔
29 جنوری 2019 کو ٹرائل کورٹ نے سماعت ملتوی کر تے ہوئے ریمارکس دئیے کہ ملزم آٓئندہ 28 فروری کو سماعت پر حاضر نہیں ہوا لہٰذا عدالت اس کے وارنٹ گرفتاری جاری کرے گی۔ لیکن 14 فروری کو لاہور ہائی کورٹ اور ٹرائل کورٹ دونوں نے اس وقت کے ڈی جی اے سی ای حسین اصغر غلام سرور خان کی جعلی ڈگری کیس کی ازسرنو تحقیقات کا حکم دیا ۔
نئے انکوائری افسر نے کیس ختم کر دینے کی سفارش کی ۔ڈی جی اے سی ای نے انکوائری افسر کی سفارشات کی منظور ی دیتے ہو ئے نوٹ تحریر کیا کہ چئیرمین بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن لاہور کی جانب سے غلام سرور خان کے ڈپلومے کی تنسیخ کو لاہور ہائی کورٹ نے ایک طرف رکھدیا ہے ۔
اب34 سال بعد ازسرنو کارروائی کی ابتدا اور کسی دستاویزی ثبوت کے بغیر 44 سال بعد کسی دستاویزیحتمی شکل دیا جا نا ایک مشق لاحاصل ہے ۔
رپورٹ منظور ہو گئی اور تنسیخی رپورٹ عدالت میں ڈاخل کر دی گئی۔اس وقت غلام سرور خان وزیر پٹرولیم تھے جب کیس منسوخ ہو نے کی رپورٹ داخل کی گئی۔
تمام چاروں فورمز ٹرائل کورٹ ، الیکشن ٹریبونل ،ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اے سی ای نے بڑی شد و مد سے غلام سرور خان کے جعلی ڈپلومے پر احتجاج کیا۔
ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ سے لے کر عدالتمیں حتمی چالان میں انہیں مورد الزام ٹھہرایا گیا ۔لیکن پھر اچانک ذہن ہی تبدیل ہو گیا ۔
پنجاب فورنسک سائنس ایجنسی کی رپورٹ میں جعلسازیوں کی تصدیق کی گئی ۔وہ ٹرائل کورٹ میں زیر غور ہی نہیں آئی ۔نہ ہی ڈی جی اے سی ای کی جانب سے تنسیخی رپورٹ دیتے وقت اس کا ذکر ہوا ۔
غلام سرور خا ن کا یہ اعتراف ریکارڈ پر ہے کہ ریٹرننگ افسر لاہور کو داخل کر دہ ان کے اسلامیہ یونیورسٹی کے ڈپلومہمیں نقائص ہیں۔ 2002 کے عام انتخابات میں ریٹرننگ افسر کو انہوں نے نقائص پر مبنی ڈپلومہ داخل کیا ۔
اسکیس کا پس منظر یہ ہے کہ یکم ستمبر 2001 کو پنجاب بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن نے غلام سرور خان کے حق میں 1974 میں غلام سرور خان کے حق میں این او سی جا ری کی کہ وہ پولی ٹیکنیک کالج لائلپور کے طالب علم تھے جہاں سے انہیں سیریل نمبر 004597 کے تحت ڈپلومہ جاری کیا گیا ۔ تاہم وہ پولی ٹیکنیک کالج لائلپور کے کبھی طالب علم نہیں رہے ۔
5 ستمبر 2001 کو ایک اور این او سی جاری ہوئی جس میں بتایا گیا کہ غلام سرور خان نے گورنمنٹ پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ سے ڈپلومہ پاس کیا ہے ۔
2002 میں غلام سرور خان نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے بی اے امتحان میں بیٹھنے کے لئے درخواست دائر کی اسی سال انہوں نے اپنے داخلہ فارم کے ساتھ حلف نامہ داخل کیا کہ وہ پی بی ٹی ای سے ʼ1975 میں ڈپلومہپ کر چکے ہیں ۔اسی ڈپلومہکی بنیاد پر انہوں نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے بی اے کیا ۔
اسی ڈپلومے کی بنیاد پر انہوں نے 2002 کے عام انتکابات میں قومی اسمبلی حلقہ ۔53 کے لئے کاغذات نامزدگی داخل کئے جنہیں ان کے مقابل چوہدری نثار علی خان نے چیلنج کیا ۔2003 میں غلام سرور خان نے اپنے ڈپلومے سے لاتعلقی ظاہر کر دی ۔
اسبار وہ ایک نیا ڈپلومہ مختلف مندرجات کے ساتھ لے آئے ۔پرویز مشرف کے دور میں انہوں نے مسلم لیگ (ق) میں شمولیت اختیار کر لی جب پی بی ٹی ای نے پرسنٹیج میں تصھیح اور رولنمبر میں تبدیلی کا این او سی ان کے لئے جاری کیا 2003 میں انہوں نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کو درخواست دی کہ ان ڈپلومہرولنمبر 7830 درخواست گزارکے تعلیمی ریکارڈ میں رکھا جائے ۔
2009 میں پنجاب بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن نے معاملے کی تحقیقات کے لئے تین رکنی کمیٹی قائم کی جس نے دستیاب شہادتوں کی بنیاد پر ڈپلومے کو جعلی پایا ۔
5 دسمبر 2012کو پنجاب بورڈ آف ٹینیکل ایجوکیشن نے غلام سرور خان کے ڈپلومے کو جعلی قرار دے دیا ۔
اسلامیہ یو نیورسٹی بہاولپور نے انہیں شو کاز جاری کیا ،غلام سرور خان نے فیصلے کو چیلنج کر تے ہوئے13 دسمبر 2012 کو رٹ پٹیشن دائر کی جس میں آرڈر کو چیلنج کیا گیا ۔
18 جولائی 2013 کو سپریم کورٹ نے ان کے حق میں جاری الیکشن کمیشن کا نوفکیشن معطل کر دیا ۔2015 میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی سنڈیکیٹ نے غلام سرور خان کی ڈگری اور رزلٹ کو منسوخ کر دیا ۔2016 میں غلام سرور خان نے لاہور کورٹ سے حکم امتناع حاصل کرلیا ۔
2018 میں ٹرائل کورٹ نے غلام سرور خان کو طلب کیا ۔انہوں نے انتخابی مصروفیات کے باعث التوا کی درخوست دے دی ۔گزشتہ سال ڈی جی اے سی ای نے ازسر نو تحقیقات کا حکم دیا ۔نئے انکوائری افسر ناصر چٹھہ نے کیس ختم کر دینے کی سفارش کی ۔