آسٹریا (اصل میڈیا ڈیسک) علی رحیمی ستمبر 2015 میں آسٹریا پہنچا، تو وہ بہت پرامید تھا۔ اسے امید تھی کہ وہ پرامن زندگی جی سکے گا۔ مگر اسے آسٹریا سے واپس افغانستان بھیج دیا گیا۔ اب وہ وہاں دوبارہ خوف کے سائے میں جی رہا ہے۔
سولہ برس کی عمر میں علی رحیمی آسٹریا پہنچا۔ مگر وہ اس وقت تک خوف، دہشت اور جدوجہد جیسی مشکلات سے واقف تھا۔ وہ فقط طالبان کے ظلم ہی کے سائے میں نہیں بلکہ مشقت کے جبر تلے پلا بڑھا تھا۔ نسلی طور پر رحیمی کا تعلق ہزارہ برادری سے ہے۔ اسے اپنے والد کے ہاتھوں بھی تشدد کا سامنا رہا۔ 11 برس کی عمر میں رحیمی کو اس کے والد جبری طور پر ایران لے گیے، جہاں وہ فرش پر ٹائلیں لگانے کے کام پر مامور کر دیا گیا۔ غیرقانونی طور پر ایران میں رہنے کی وجہ سے اسے قید کر دیا گیا تھا۔ ایران میں اسے ‘کسی جانور کی طرح قید رکھا گیا۔‘‘
رحیمی 16 برس کا تھا کہ اس کے والد نے اس سے تمام تر پیسے چھین لیے اور علی رحیمی کو ایران میں تنہا چھوڑ کر افغانستان چلا گیا۔ سن 2015 میں یورپ نے سرحدیں کھولیں، تواسے امید کی کرن دکھائی دی اور وہ ایک ماہ کے سفر کے بعد آسٹریا پہنچ گیا۔ آسٹریا میں رحیمی نے سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرا دی۔ رحیمی کے مطابق آسٹریا میں پہلی بار اسے آزادی اور بے خوفی کا احساس ہوا تھا۔
سن 2016 میں علی رحیمی کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہو گئی، جس کے خلاف اس نے اپیل دائر کی۔ سن 2018 میں اس کی یہ اپیل بھی مسترد ہو گئی۔
وکیل کے مشورے پر علی رحیمی آسٹریا سے نکل کر جرمنی پہنچا اور میونخ میں دوبارہ سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرا دی۔ تاہم یہاں اسے بتایا گیا کہ اسے دوبارہ آسٹریا جانا ہو گا۔ ایک ماہ کے بعد اسے جبری طور پر واپس آسٹریا پہنچا دیا گیا۔ رحیمی کے مطابق آسٹریا میں انسانی حقوق کے سرکاری نمائندگان ایک ماہ تک تواتر سے اس کے پاس آتے رہے اور اسے کہتے رہے کہ وہ افغانستان جانے کے لیے رضامندی کے دستاویز پر دستخط کر دے۔
رحیمی کے مطابق اسے کہا گیا کہ اگر وہ رضاکارانہ طور پر افغانستان واپس نہیں جاتا، تو پولیس اسے جبری طور پر افغانستان پہنچا دے گی۔ بالآخر رحیمی نے اس دستاویز پر دستخط کر دیے اور اسے جولائی 2018 میں کابل واپس بھیج دیا گیا۔ رحیمی کے مطابق اسے کہا گیا تھا کہ رضامندی سے افغانستان جانے پر اسے 28 سو یورو دیے جائیں گے تاکہ وہ وہاں کوئی کاروبار شروع کر سکے، لیکن اسے فقط پانچ سو یورو دیے گئے۔
رحیمی کے مطابق افغانستان میں سماجی طور پر یہ تاثر قائم ہے کہ فقط جرائم پیشہ افراد کو یورپ سے افغانستان بھیجا جاتا ہے۔ ”یہاں سمجھا جاتا ہے کہ یورپ سے واپس بھیجے جانے والے لوگ اپنے پورے خاندان کے منہ پر دھبا ہیں۔‘‘
اس کے بعد علی رحیمی ایک مرتبہ پھر افغانستان سے ایران پہنچ کر فرشی ٹائلیں لگانے کے غیرقانونی کام میں مصروف ہو گیا۔ وہاں پیسے جمع کر کے دوبارہ یورپ پہنچنے کی کوشش میں وہ ایران سے استنبول پہنچا، لیکن پکڑا گیا اور اسے ایک مرتبہ پھر افغانستان واپس بھیج دیا گیا۔
اب علی افغانستان میں ایک آرٹ اسکول میں داخلہ لے چکا ہے۔ علی رحیمی کی عمر اب 21 برس ہے اور وہ اپنی مادری زبان دری میں لکھنا پڑھنا سیکھ چکا ہے، جب کہ اسے جرمن زبان بھی لکھنا پڑھنا آتی ہے۔