خدا کسی قوم کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے آپ کو تبدیل نہ کر لے۔ انسان سے گھر بنتا ہے اور گھر سے ایک معاشرہ وجود میں آتا ہے۔انسان کا کردار اس کی فکر پر منحصر ہوتاہے۔انسان ایک معاشرہ تشکیل دیتا ہے۔جب ایک شخص پیدا ہوتا ہے تو نہ وہ پیدائشی طور پر شریف ہوتا ہے اور نہ ہی مجرم بلکہ اس کے ایک اچھے انسان بننے اور مجرم بننے میں یہ معاشرہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بچہ اگر ایک ایسے معاشرے میں پیدا ہو جس جگہ کے افراد پڑھے لکھے، با شعور اور با اخلاق ہوں تو فطری طور پر وہ بچہ اچھے اخلاق کا مالک ہوگا۔ایک اچھا انسان بنے گا لیکن اس کے برعکس اگر ایک بچہ ایسے معاشرے میں آنکھ کھولتا ہے جس جگہ کے لوگ بے شعور، بد اخلاق اور ان پڑھ ہوں تو یہ باتیں بچے پر منفی اثرات مرتب ضرور کریں گی۔ صرف یہی نہیں بلکہ اگر وہ معاشرہ مختلف طرح کی برائیوں میں مبتلا ہو تو یہ سب باتیں چھوٹی چھوٹی برائیوں سے برے کاموں کی طرف لے جاتی ہیں اور ایک اچھے بھلے انسان کو مجرم بنا دیتی ہیں۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ پر سکون ہو اور ہر طرح کی برائیوں سے پاک ہو تو ہمیں سب سے پہلے اپنے نفس کو ٹھیک کرنا ہوگا اور دوسروں کے عیب تلاش کرنے کے بجائے خود اپنے آپ کو بے عیب کرنا ہوگا کیونکہ اچھا معاشرہ بہترین انسانوں سے ہی تشکیل پاتا ہے۔ شہریوں کو اپنے حقوق کیلئے ملک کے قانون سے آگاہی بہت ضروری ہے بلکہ ملک کے آئین اور قانون سے متعلقہ شائع ہونے والی کتب کا مطالعہ کر نا چاہئے۔ اس عمل سے عوامی مسائل حل کروانے میں مدد ملے گی اور ملک ترقی کرئے گا۔پاکستان کے آئین اور قانون کے تحت محکمہ کے مختلف عہدے داروں میں سرکاری کام کی تقسیم کیا ہے۔ وزیر کے فرائض:(۱) صوبائی وزیر کے فرائض مندرجہ ذیل ہیں۔(الف) پالیسی معاملات اور محکمہ کو تعین کردہ کام کی انجام دہی کا ذمہ ہوگا۔(ب) قواعد کار کے تحت وزیراعلیٰ کو معاملات پیش کرے گا۔(ج) وزیراعلیٰ کو ایسے اہم معاملات کے بارے میں مطلع رکھے گا جو اس نے وزیراعلیٰ کو پیش کیے بغیر نمٹائے۔(د) اپنے محکمہ سے متعلق اسمبلی کے معاملات انجام دے گا۔(۲) وزیر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے محکمہ سے متعلق اہم سیاسی، معاشی اور انتظامی معاملات میں وزیراعلیٰ سے مشاورت کرے۔
سیکریٹری کی ذمہ داریاں۔(۱) سیکریٹری کے فرائض منصبی مندرجہ ذیل ہوں گے۔(الف) سربراہ ِ محکمہ ہونے کی حیثیت سے سیکریٹری اپنے محکمہ کے مؤثر انتظام کا ذمہ دار ہوگا۔(ب) سیکریٹری قواعد کار کے تحت محکمہ کو تعین کردہ سرکاری امور اور ان امور کی انجام دہی میں قوانین و قواعد بشمول قواعد کار کی پابندی کا ذمہ دار ہوگا۔(۲) سیکریٹری کی ذمہ داری ہے کہ حکومت کے عمومی یا خصوصی احکام کے تحت۔(الف) اپنے ماتحت افسران کو اختیارات تفویض کرے اور ایسا کرتے ہوئے ان اختیارات کی زیادہ سے زیادہ حد کا تعین کرے اور معاملات کی نوعیت کی وضاحت کرے۔ ان اختیارات پر مبنی واضح مستقل احکامات جاری کرے اور محکمہ میں معاملات نمٹانے کا طریق کار طے کرے۔(ب) ضلع حکومت کو تفویض کردہ کام کی انجام دہی کے لیے اپنے افسران کو خصوصی احکامات اور ہدایات جاری کرے۔ سیکریٹری اور وزیر کے تعلقات کار۔(۱) سیکریٹری، محکمہ کو تعین کردہ سرکاری امور کے لیے وزیر کو جواب دہ ہے۔ سیکریٹری کی ذمہ داری ہے کہ وہ محکمہ کی کارکردگی اور ایسے اہم معاملات جو وزیر کو پیش کیے بغیر نمٹائے گئے ہوں، کے بارے میں وزیر کو مطلع رکھے۔(۲) سیکریٹری پالیسی سازی میں وزیر کی معاونت کرے گااور ایسے معاملات کے بارے میں وزیر کو آگاہ کرے گا جو وزیراعلیٰ کو پیش کرنا ضروری ہیں۔(۳) سیکریٹری کی ذمہ داری ہے کہ وزیر کی منظوری سے، کابینہ کو قانون سازی کے لیے تجاویز پیش کرے۔(۴) سیکریٹری محکمہ میں نمٹائے جانے والے اہم معاملات کے بارے میں چیف سیکریٹری کو مطلع رکھے گا۔ وزیرانچارج کو معاملات پیش کرنا۔کوئی معاملہ وزیر کے احکامات کے لیے پیش کرتے ہوئے سیکریٹری ایک متعین لائحہ عمل تجویز کرے گا۔
سیکریٹری اور وزیر میں اختلاف کی صورت میں طریق کار۔(۱) اگر وزیر کے احکامات کسی قانون، قواعد و ضوابط یا حکومت کی پالیسی کے خلاف ہوں تو سیکریٹری وزیر کو دوبارہ معاملہ پیش کرے گا اور وزیر کی توجہ متعلقہ قانون، قواعد و ضوابط یا حکومت کی پالیسی کی طرف مبذول کرائے گا۔ اگر وزیر سیکریٹری سے اتفاق نہ کرے تو سیکریٹری مذکورہ معاملہ پر احکامات کے لیے وزیراعلیٰ سے رجوع کرسکتا ہے۔ منظور دہ پالیسی پر عمل درآمد۔سیکریٹری منظور شدہ پالیسی پر عمل درآمد کا ذمہ دار ہوگا۔۷۔ایڈیشنل سیکریٹری سرشعبہ/ونگ کا انچار ج ہوتا ہے اور سیکریٹری بطور سربراہ مستقل احکامات کے ذریعے اس کے فرائض منصبی کا تعین کرتا ہے۔ سیکریٹری مستقل احکامات کے ذریعے ڈپٹی سیکریٹری کے فرائض منصبی کا تعین کرتا ہے۔ اس کے تحت متعدد سیکشن کام کرتے ہیں۔ ڈپٹی سیکریٹری ایسے تمام معاملات نمٹاتا ہے جن میں پالیسی کا کوئی بڑا مسئلہ درپیش نہ ہو یا قواعد اور مستقل احکامات کے تحت وہ ان معاملات کو نمٹانے کے لیے بااختیار ہو۔ سیکشن کا انچارج افسر صیغہ ہوتا ہے۔ صوبوں میں عام طور پر افسرصیغہ ایسے تمام معاملات نمٹاتا ہے جہاں واضح نظائر موجود ہوں اور ان نظائر سے انحراف کا کوئی مسئلہ درپیش نہ ہو یا قواعد اور مستقل احکامات کے تحت اسے یہ معاملات نمٹانے کا اختیار دیا گیا ہو۔
دوسری جانب ان قوانین پر کتنا عمل درآمد ہوتا تھاہوتاہے اس بات کی گواہی عوامی مسائل اور قومی سانحہ کی تحقیقاتی رپورٹس ہیں موجودہ حکو مت کے حوالے سے گیلپ سروے میں بتا یا گیا ہے کہ پنجاب کے 46 فیصد کی رائے میں وزیر اعلیٰ پنجاب کی کارکردگی خراب ہے جبکہ 31 فیصد کی رائے میں وزیر اعلیٰ پنجاب کی کارکردگی اچھی ہے۔ سندھ کے 62فیصد کی رائے میں وزیر اعلیٰ سندھ کی کارکردگی خراب ہے جبکہ11 فیصد کی رائے میں وزیر اعلیٰ سندھ کی کارکردگی اچھی ہے۔ کے پی کے 53 فیصد کی رائے میں وزیر اعلیٰ کے پی کی کارکردگی اچھی، 26 فیصد کی رائے میں خراب ہے، بلوچستان کے 7 فیصد کی رائے میں وزیر اعلیٰ بلوچستان کی کارکردگی اچھی ہے۔66 فیصد پاکستانی پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں،32 فیصد پاکستانی پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہیں،59 فیصد پاکستانیوں کی رائے میں پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی گزشتہ حکومت سے خراب ہے،پی ٹی آئی کے 20 فیصد سپورٹرز وفاقی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں،70 فیصد مرد اور 60 فیصد خواتین وفاقی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مضبوط اور با کردار لوگ شکایتیں نہیں بلکہ فیصلے کرتے ہیں تحریک انصاف حکو مت برسراقتدار آنے کے بعد وفاقی کابینہ میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی گئیں۔لیکن چینی بحران، آٹا بحران، پٹرول بحران اور مہنگائی کا طوفان پیدا کرنے والے مافیا کو متعلقہ وزیر کی تبدیلی کے ساتھ عام معافی مل گئی۔اس صورتحا ل میں سینکڑوں پاکستانی دنیا فانی سے کوچ کرگئے۔ جن کے قتل کی ذمہ دارمتعلقہ ورزاء پر عائد ہوتی ہے۔لیکن اتفاق کی بات ہے موجودہ حکومت میں شامل متعدد ورزاء اور اراکین کا تعلق اپوزیشن جماعتوں سے خونی رشتہ کاہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ ہرسانحہ کے بعدایک دوسرے کو بچانے کے لئے حکومتی اور اپوزیشن اراکین سیاسی دنگل کا انعقاد کرلیتے ہیں، پریس کانفرنسوں میں لفظی جنگ سے ووٹروں اور عوام کو خوش کرنے کے ساتھ ساتھ معاملے کو باآسانی حل کروالیتے ہیں۔ سابہ یا بحران پر عوامی احتجاج کا سلسلہ بند ہو جاتاہے۔مافیاز کو اربوں روپے کا فائدہ اورمجرم سے محرم ہوجاتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جیسا کروگے ویسا بھروگے۔تاریخ گواہ ہے لاکھوں واقعات رونما ہوچکے ہیں۔خبر یہ ہے اب یہ سلسلے جلدختم ہونے والا ہے۔درجنوں سیاسی مافیا خاندان اس کی زد میں آنیوالے ہیں۔ایک ایسے عوامی طوفان پاکستان کی خوبصورت وادی کو مہنگائی اور غریبوں کے قبرستان میں تبدیل کرنے والوں کا بہہ لے جائے گا۔ یہ سلسلہ یورپ سمیت دیگر ممالک میں شروع ہو چکا ہے۔