خیبر پختونخواہ (اصل میڈیا ڈیسک) پشاور حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں پیر کے روز ایک 12 سالہ دلہن، جس کی سوتیلی ماں کے گھر میں پراسرار موت ہوئی تھی، کا پوسٹمارٹم معائنہ مکمل ہونے کے بعد اُسے اُس کے گاؤں میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
مقامی پولیس نے بتایا کہ 12 سالہ نائلہ کی پوسٹمارٹم رپورٹ آنے کے بعد موت کی تحقیقات کا باضابطہ آغاز کیا جائے گا، جو کہ آج (منگل) کو متوقع ہے۔ ثمرباغ اور لال قلعہ پولیس اسٹیشنز کی مشترکہ ٹیم نے نعش کو ایچ ایم سی منتقل کر دیا۔ پولیس کے مطابق بچی کی موت کے نتیجے میں کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی کیوں کہ بچی کے سسر نے کسی شخص پر شبہ کا اظہار نہیں کیا۔
بچی کے سسر وزیرمحمد کے مطابق انہوں نے اس لڑکی پر ترس کھاتے ہوئے اپنے 13 سالہ بیٹے امین اللہ کے ساتھ 7 جولائی کو اس کا نکاح کیا تھا۔ مزید یہ کہ بچی اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ رہتی تھی کیوں کہ اس کے والد نے چند سال قبل بچی کی حقیقی ماں کو طلاق دے دی تھی۔
وزیرمحمد نے کہا کہ یہ کم سن دلہن انتہائی بیمار، کمزور اور زرد نظر آتی تھی اس لیے اس نے پہلے ڈاکٹر سے اس کا معائنہ کروایا اور پھر ٹائمرگارہ میں قائم ڈی ایچ کیو ہسپتال لے گیا، لیکن اس کی حالت بگڑ گئی اور وہ خود پر ہونے والے ستم سے ہار کر دم توڑ گئی۔
دیگر معاشروں کی طرح پاکستان میں بھی نہ صرف لڑکیوں کی جبری شادی کا رواج اب بھی پایا جاتا ہے بلکہ انہیں تشدد کا نشانہ بھی بننا پڑتا ہے۔
تھانہ لعل قلعہ کے حدود محبت کوٹو سے تعلق رکھنے والی 12سالہ نائلہ کی موت کا ذمہ دار کسے ٹھہرایا جائے ؟ پشاور میں آج ٹی وی کی بیورو چیف فرزانہ علی نے نائلہ کی شادی اور پھر تیسرے روز اس کی ہلاکت کے بارے میں ڈوئچے ویلے سے بات چیت میں کہا،” میرے نزدیک یہ ایک ایسا گھناؤنا عمل ہے جس کی ذمہ داری نہ صرف اُس کے والدین بلکہ اہل علاقہ اور احباب و رشتہ داروں سمیت ریاست پر بھی عائد ہوتی ہے۔ کیونکہ جہاں ایک طرف نائلہ کی کم عمری میں شادی ایک جرم تھا جس کے ارتکاب میں سب ذمہ دار تھے وہاں اُس پر تشدد اور اس کا مبینہ قتل ایک ایسا عمل ہے جس میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے قانون سازی نہ کرنے والے بھی برابر کے شریک ہیں۔‘‘
خیبر پختونخواہ کے چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر کمیشن کے سربراہ محمد اعجاز سے جب ڈی ڈبلیو نے پوچھا کہ نائلہ کیس پر ان کے کمیشن نے کیا مؤقف اختیار کیا ہے تو اُنہوں نے کہا، ”ہم سب سے پہلے اس بہیمانہ قتل کی مذمت کرتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم نے کمیشن کی طرف سے صوبائی حکومت کو چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ کے تحت کم سنی کی شادی کے خلاف بل کی منظوری پر جلد ایکشن لینےکو کہا ہے۔‘‘
کھیلنے کودنے کی عمر میں اگر بچیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جائے تو وہ نفسیاتی مریض بھی ہو جاتی ہیں۔
خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والی معروف صحافی اور خواتین اور بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم فرزانہ علی نے 2019 ء میں پختونخوا میں چائلڈ میرج ریسٹرین بل کی تیاری کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس کی مدد سے 1929ء کے ایکٹ میں موجود سقم کو ختم کیا جا سکتا تھا تاہم 2020 ء آ گیا مگر کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔ فرزانہ کے بقول، ”اب بھی صوبائی وزیر قانون محمد سلطان خان اسمبلی میں یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ آئندہ کابینہ کے اجلاس میں بل پیش کر دیا جائے گا۔ جو اسمبلی ایک دہائی سے گھریلو تشدد کے خلاف بننے والے بل کو ٹال مٹول سے تاخیر کا شکار کر رہی ہے وہاں چائلڈ میرج کا مسئلہ تو اور بھی پیچیدہ ہے۔‘‘
فرزانہ علی اس سوال کے جواب میں کہتی ہیں، ”سارا مسئلہ عمر کی حد کا ہے۔ مذہب کا لبادہ اوڑھے کچھ قوتیں ہر معاملے میں ٹانگ اڑا کر بچیوں اور خواتین کے خلاف ہونے والے ظلم سے نظریں چراتے نظر آتی ہیں۔ اور بدقسمتی سے یہ مسئلہ صرف مذہبی جماعتوں کا نہیں بلکہ خود کو لبرل کہنے والے بھی اپنے پانچ سالوں میں یہ قانون سازی نہ کر سکے۔ حد تو یہ ہے کہ ابھی تک نائلہ کے قتل اور کم عمری میں شادی کا مقدمہ تک درج نہ ہو سکا کیونکہ جب قاتل ہی ولی ہو تو مقدمہ کون درج کرے گا۔ اب یہ ذمہ داری صوبائی چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفئیر کمیشن کی ہے کہ وہ اپنی مدعیت میں مقدمہ درج کرے۔‘‘
کم سنی کی شادی کا انجام اکثر ڑکی کی موت ہوتا ہے۔
اُدھر سوات سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی اور صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم فورتھ پلر کے خیبر پختونخواہ کے ڈائریکٹر سید انور شاہ نے ڈی ڈبلیو کو نائلہ کیس کے بارے میں تازہ ترین اطلاعات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ وہ لعل قلعہ پولیس اسٹیشن کے اہلکاروں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور اب تک اس کیس میں کسی کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔ انور شاہ نے بتایا کہ نائلہ کا والد اپنے گاؤں میں ہی موجود ہے مگر اُس کی طرف سے ابھی تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔