استنبول (اصل میڈیا ڈیسک) ترک مذہبی مقتدرہ ’دیانت‘ کے مطابق آیا صوفیہ میں موجود ماضی کی مسیحی مذہبی علامات آئندہ بھی وہیں رہیں گی اور انہیں ہٹایا نہیں جائے گا۔ استنبول کا یہ صدیوں پرانا کلیسا اور پھر میوزیم حال ہی میں مسجد میں بدل دیا گیا تھا۔
استنبول سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ترکی میں مذہبی امور کی نگران قومی مقتدرہ، جو ‘دیانت‘ کہلاتی ہے، نے منگل چودہ جولائی کو اعلان کیا کہ اس شہر میں واقع شہرہ آفاق اور صدیوں پرانی آیا صوفیہ کی عمارت میں موجود اس دور کی مسیحی مذہبی علامات، جب وہ ایک کلیسا تھی، آئندہ بھی وہاں موجود رہیں گی۔
ساتھ ہی ‘دیانت‘ نے یہ اعلان بھی کیا کہ آیا صوفیہ میں نمازوں کے اوقات کے علاوہ مہمانوں کو یہ اجازت بھی ہو گی کہ وہ اندر جا کر اس عمارت کی سیر کر سکیں۔ ‘دیانت‘ کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے یونیسکو کی عالمی ثقافتی میراث کی فہرست میں شامل اس عمارت میں موجود کوئی بھی مسیحی مذہبی علامت یا تاریخی پینٹنگز وہاں سے ہٹائی نہیں جائیں گی۔
آیا صوفیہ میں ایسی مذہبی علامات کو آئندہ نماز کے وقت یا تو پردے لگا کر ڈھانپ دیا جائے گا یا پھر داخلی طور پر روشنی کا انتظام اس طرح کیا جائے گا کہ یہ علامات براہ راست اور بالکل سامنے نظر آنے والی اشیاء اور دیواروں پر پینٹنگز کے طور پر نہیں دیکھی جا سکیں گی۔ یہ بات تاہم واضح نہیں کہ ترک حکام یہ کام کس طرح کریں گے۔
استنبول میں واقع آیا صوفیہ کی عمارت 1453ء تک بازنطینی دور کا مرکزی کلیسا تھی۔ اسے ترک عثمانی دور میں استنبول کی فتح کے بعد مسلمانوں کی مسجد میں بدل دیا گیا تھا۔ آیا صوفیہ کی مسجد کے طور پر حیثیت 1934ء تک قائم رہی تھی، جس کے بعد چند روز پہلے تک اس تاریخی عمارت کی حیثیت ایک میوزیم کی تھی۔
ترکی کی ایک اعلیٰ عدالت کے حالیہ فیصلے کے بعد گزشتہ ہفتے ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ چھٹی صدی عیسوی میں تعمیر کردہ اس عمارت کو جلد ہی ایک مسجد کے طور پر دوبارہ کھول دیا جائے گا۔ عدالت نے 1934ء میں کیے گئے اس فیصلے کو منسوخ کر دیا تھا، جس کے تحت تب اس مسجد کو میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
مسجد کے طور پر آیا صوفیہ میں قدیمی مسیحی مذہبی علامات کی موجودگی کے حوالے سے بہت سے مسلم علماء کے مطابق ایک اہم بات یہ ہے کہ کسی مسلم عبادت گاہ میں کوئی مسجمے، جانوروں کی تصاویر یا انسانی شبیہات کی عکاسی کرنے والی پینٹنگز نہیں ہو سکتیں۔
ترک عدالت کے اس بارے میں فیصلے اور پھر صدر ایردوآن کی طرف سے کیے گئے اعلان پر دنیا کے کئی ممالک اور بین الاقوامی اداروں نے افسوس اور ناخوشی کا اظہار کیا تھا۔ ان میں امریکا، یورپی یونین، روس، یونان اور یونیسکو نمایاں تھے۔
اس سلسلے میں صدر ایردوآن کا موقف یہ ہے کہ آیا صوفیہ میں آئندہ کسی بھی مذہب یا عقیدے سے تعلق رکھنے والے مہمان مفت داخل ہو سکیں گے اور یہ کہ آیا صوفیہ سے متعلق ترک عدالت اور پھر حکومتی فیصلے کا تمام غیر ملکی مبصرین کو احترام کرنا چاہیے۔
کمال اتاترک کی قائم کردہ جدید ترک جمہوریہ میں استنبول کی یہ صدیوں پرانی عمارت عشروں تک سیکولرزم کی بہت بڑی علامت رہی تھی۔-