کچھ عرصہ پہلے تک صبح صبح مرد دفتر کے لئے نکل جاتے تھے اور بچے سکول۔ خاتون خانہ اس کے بعد ان کی بکھری چیزیں سمیٹتیں، اپنا ناشتہ کرتیں ملازمہ سے گھر کی صفائی کرواتیں اور کھانا بنا کر اگر موقع ملتا تھا توگھنٹہ آدھ گھنٹہ کمر بھی سیدھا کر لیتی تھیں۔ علاوہ ازیں اپنے گھر والوں یا بہت قریبی دوستوں سے میاں اور سسرال کی زیادتیاں بیان کر کے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کا فریضہ بھی اسی دوران انجام دیا جاتا تھا۔دوپہر کے بعد خواتین کا مصروف وقت شروع ہو جاتا تھا۔بچے آ جاتے تھے تو انھیں کھانا دینا اور ان کے ضروری کام۔ پھر شام میں میاں آجاتے تھے۔ چائے کھانا اور دیگر امور رات گئے نبٹا کر سویا جاتاتھا۔
چین، ایران اور اٹلی اور باقی دنیا میں تباہی پھیلاتا کرونا پاکستان آ پہنچا۔پاکستان میں بھی لوگوں کو ایک دوسرے سے ملنے میں احتیاط کرنے اور فاصلہ رکھنے کا کہا گیا۔احتیاطی تدابیر کے طور پر تعلیمی ادارے پہلے ہی بند کر دئیے گئے تھے۔بچوں نے گھروں میں والدین بالخصوص والداؤں کی ناک میں دم کر دیا تا کہ وہ کرونا سے محفوظ رہیں۔ ابھی خواتین بچوں کے اس حملے سے سنبھلنے نہ پائی تھیں کہ حکومت نے ان پر بجلی گراتے ہوئے دفاتر بھی بند کر دئیے۔ پہلے خواتین خود گلہ کرتی تھیں کہ مرد حضرات گھر میں نہیں بیٹھتے۔دفتر بند بھی ہوں تودوستوں یاروں کے لئے تو ان کے پاس وقت ہوتا ہے مگر بیوی بچوں کے لئے نہیں۔
حالانکہ ہفتہ وار تطیل پر بیگم و بچے خود مردوں کو باہرنکال لے جاتے تھے کہ شاپنگ و سیر ہو جائے۔ مردو کو گھر بٹھانے اور خواتین کو سبق سکھانے کے لئے حکومت نے نہ صرف انھیں چھٹیاں دی بلکہ تمام دکانیں کاروباری و دیگر ادارے بھی بند کر دئیے۔سڑکوں ، چوراہوں اور گلیوں الغرض گھر سے باہر پولیس والے بھی بٹھا دئیے کہ جو بلا ضرورت باہر نکلے اسے سرکاری ضیافت سے بہرہ مند کیا جائے۔ صورت حال یہ ہوگئی تھی کہ بچے بھی گھر پر اور میاں بھی وہیں تھے۔مرد جو صبح کام پر جاتے تھے اب گھر سے ہی کام کر رہے تھے یا پھر گھر میں بیکار بیٹھے تھے۔ صبح دیر تک سوئے رہنے سے سارے کام متاثر ہوتے ہیں۔ خالی دماغ شیطان کا کارخانہ ہوتا ہے۔مرد حضرات اپنی طرف سے تو مدد کرنا چاہتے کہ کبھی کچھ پکانے کی کوشش کر دی مگر ان کی یہ مدد خواتین کو ایک آنکھ نہیں بھائی کبھی کیونکہ باورچی خانے کا حلیہ اس دوران بگڑجاتا تھا۔ پکانے سے زیادہ وقت انھیں باورچی خانے کو اپنی اصل حالت میں کرنے میں صرف ہوتا تھا۔ بیگمات تنگ آ کر کہتی تھی کہ بہتر ہے کہ موبائل یا لیپ ٹاپ پکڑ لیں۔
درد کادرد سے درماں کرتے یوں علاجِ غمِ جاناں کرتے
وہ صوفے و کارپٹ پر کشن لے کر بیٹھتے تو لاؤنج کسی جنگ کا منظر پیش کرنے لگتا۔ گدیاں کہیں کشن کہیں اور گاؤ تکیے کہیں۔ اس قدر محنت سے انسان تھک ہی جاتا ہے۔ دفاتر میں گھنٹے دوگھنٹے بعد کام میں چائے کا وقفہ آ جاتا ہے تو بیگم سے چائے کی فرمائش کی جاتی۔ گھر میں سادہ چائے کہاں اچھی لگتی ہے۔ سو چائے کے ساتھ بھی کچھ اہتمام ہوتا۔ بعد ازاں کھانا تو معمول کی سرگرمی ہوا۔ شام یعنی سکول و دفاتر کے بعد والے معمولات کا تو کرونا سے تعلق تھا ہی نہیں سو اس میں کسی قسم کی تبدیلی خارج از امکان ہوئی۔ شام و رات کے معمولات اسی شد و مد کے ساتھ جاری رہتے ہیں بلکہ رات دیر سونے کے باعث مزید فرمائشیں آنا بھی بعید از قیاس نہیں۔اس کے باوجود اکثر خواتین کو یہ سننے کو ملتا ہے کہ تم نے دن بھر کیا کیا ہے؟ حالانکہ ان دنوں کمرے سے اٹھ کر کچن میں جانا ہی ایک طرح کا جہاد ہے۔
لاک ڈاؤن کے باعث چوری ، حادثوں اور دیگر جرائم کی شرح میں کمی آئی ہے تاہم میاں بیوی کے جھگڑوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ہمارے ہاں ایسی چیزیں کم ہی رپورٹ ہوتی ہیں تاہم اچھی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں میاں بیوی کی بس سرحدی جھڑپیں ہوتی ہیں بات جنگ تک نہیں پہنچتی۔پاکستانی خواتین کو اس بات کا کریڈٹ بہرحال جاتا ہے کہ وہ اپنا گھر بچانے کی کوشش کرتی ہیں ہیں اورمردوں کے بعض ناجائز نخرے اور مطالبے برداشت کر لیتی ہیں ورنہ کچھ روز قبل ہم پڑھ رہے تھے کہ کئی ممالک میں کرونا وائرس کی آمد کے بعد طلاقوں کی شرح بہت بڑھ گئی ہے۔ اس میں سعودی عرب بھی شامل ہے۔ ہمارے ہاں خواتین کا کام البتہ بہت بڑھ گیا ہے۔وہ خواتین جن کے رشتے اس خوبی پر طے ہوئے تھے کہ وہ کھانا بہت لذیذ بناتی ہیں ان دنوں خاص طور پر مشکل میں تھیں۔
پہلے تو میاں کی آمد سے قبل ہی باہر سیمنگوا کر اپنے نام سے پیش کیا جا سکتا تھا مگر کرونا کے دنوں میں تو ہوٹل بھی بند تھے اور میاں بھی گھر پر موجود۔اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ملازماؤں کو بھی چھٹی دی جا چکی تھی کہ خدانخواستہ کہیں سے کرونا کو گھرنہ لے آئیں۔ تاہم اب تک پکا پکا کر اتنی ماہر ہو چکی ہیں کہ وہ خواتین زبیدہ آپا مرحومہ کو بھی مشورہ دے سکیں۔ملکی آبادی میں اضافے کے امکانات کو بھی خارج از امکان نہیں قرار دیا جا سکتا۔ کیونکہ وباؤں میں انسان صرف مرتے ہی نہیں ہیں بلکہ پیدا بھی ہو جاتے ہیں۔بعض مرد حضرات تو خواتین کو اتنا زچ کر دیتے ہیں کہ ان کے بس میں ہو تو وہ ان کو اپنی منقولہ و غیر منقولہ زندگی سے عاق کر دیں۔ایک عورت نے فیس بک پر پوسٹ لگائی کہ شوہر چاہیے۔ کچھ ہی دیر میں ایک سو تیس خواتین نے کہا کہ ہمارا لے جاؤ۔ اس نے جواب میں لکھا کہ مانگ نہیں رہی پوچھ رہی ہوں۔۔
مردوں کو گنجا تو شادی کیبعد خواتین ہی کرتی ہیں مگر وہ بتدریج ہوتا ہے۔کئی خواتین نے دوران لاک ڈاؤن اپنے بچوں کے بال خود ہی کاٹے اور بعض نے تو شوہروں کی بھی مدد کی۔ اگر یہ لاک ڈاؤن آخری نہ ہوا تو مستقبل قریب میں شادی سے پہلے جہیز،ماہرامورِ خانہ داری کے علاوہ یہ بھی دیکھا جائے گا کہ لڑکی بال کاٹنے کے فن شریف سے بھی واقف ہو۔حکومت نے خواتین کی حالتِ زار دیکھتے ہوئے لاک ڈاؤن میں نرمی کر دی ہے بلکہ اب تو لاک ڈاؤن ختم ہے۔ ہر کسی کو خود ہی احتیاط کرنی ہے مگر تاحال دفاتر مکمل نہیں کھلے۔ علاوہ ازیں تعلیمی ادارے بھی مزید دو ماہ بند رہیں گے۔کرونا نے مشکل میں تو مردوں کو بھی ڈالا ہے کہ اب مردوں کو بھی پردہ کرنا پڑ گیا ہے۔ خوشی کی بات ہے کہ اکبر الہ آبادی کے زمانے میں جو پردہ عقل پر تھا وہ اب چہرے پر سرک آیا ہیتاہم اس میں دو رائے نہیں کرونا کا زیادہ بلاواسطہ نشانہ خواتین ہی بنی ہیں۔