اس حقیقت کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ کورونا نے نہ صرف پوری دنیا میں زندگی کا پہیہ جام کر کے عالمی معیشت کو نقصان پہنچایا بلکہ ہمارے ملک میں کاروباری حضرات،دیہاڑی داروں ،مزدوروں،تھیٹر کے فنکاروں اور پرائیویٹ سکولوں کے اساتذہ کرام کے معمولاتِ زندگی کو بھی درہم برہم کر کے انہیں فاقوں تک پہنچایا۔نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ باقی تمام دنیا والوں نے تو اپنے غریبوں کو حکومتی سطح پر سینے سے لگایا اور کورونا کے باعث لگنے والے لاک ڈاؤن کے نتیجے میں بے روزگار ہونے والوں کا راشن اور دیگر ضروریاتِ زندگی کا سامان ان کے دروازوں تک پہنچانے کا مکمل بندو بست کیاجبکہ حکومتِ پاکستان نے لاک ڈاؤن لگا کر غریبوں،مزدوروں، دیہاڑی داروں،تھیٹر کے فنکاروں اور پرائیویٹ سکولوں کے اساتذہ کو یکسر فراموش کر دیابلکہ یہ حکم بھی جاری کیا کہ کوئی بھی صاحب حیثیت آدمی اپنے اردگرد کے ان بے بس لوگوں کی براہِ راست مدد کرنے کی بجائے امدادی پیسہ یا سامان حکومتی فنڈ میں جمع کروائے تا کہ حکومت خود یہ پیسہ یا سامان مستحق لوگوں تک پہنچا سکے۔ایسی شرمناک بات کرنے والوں نے اگر خود ایک دن کی بھوک بھی دیکھی ہوتی یا اپنے بچوں کو بھوک سے روتے دیکھا ہوتا تو ہرگز یہ نہ کہتے کہ اپنے سامنے بھوک سے تڑپتے ہوئے بچوں یا بڑوں کو نوالہ دینے کی بجائے وہ نوالہ حکومتی فنڈ میں جمع کروا دو یا دوا کی کمی سے جاں بلب مریض کو دوا لے کر دینے کی بجائے دوا پر لگنے والے پیسے حکومت کو دے جا۔۔جبکہ سب جانتے ہیں کہ حکومت سے ملنے والی امداد کو مستحقین تک پہنچانے سے پہلے کاغذی کارروائیاں ہوتی ہیں۔
لکھت پڑھت ہوتی ہے اعداد و شماراکٹھے کئے جاتے ہیں کہ کون مستحق ہے، کون نہیں اور پھر کہیں جا کر امدادی سامان کی تقسیم کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔صد افسوس کہ ہنگامی لاک ڈاؤن کے دوران حسبِ روایت اسی کاغذی کارروائی میں تقریبا پندرہ سے بیس دن یا پورا مہینہ ہی لگا اور پھر امداد آئی بھی تو صرف ان کو ملی جن کے شناختی کارڈ موجود تھے۔ایک ہی پکھی واس بستی میں کچھ جھگی والوں کو راشن ملا اور کچھ جھگی والے اپنے شناختی کارڈز گم ، زائد المیعاد یا سرے سے موجود ہی نہ ہونے کے باعث صرف حسرت بھری نظروں سے آسمان کی طرف دیکھتے رہ گئے۔کئی نوجوان دیہاڑی دار بیروزگاری کے نتیجے میں دوا نہ ملنے پر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔کئی معصوم بچے دودھ نہ ملنے پر بلک بلک کر اللہ کو پیارے ہوئے کئی مزدوروں نے اپنے پیاروں کو فاقوں میں مبتلا دیکھ کر خود کشی کی۔یہ تو بات تھی غریب طبقے کی کہ جو بہ اذنِ مجبوری کسی سے مدد مانگ سکتے ہیں یا کوئی بھی صاحبِ حیثیت ان کی کسمپرسی دیکھ کر خود بخود ان کی مدد کر سکتا۔مگر متوسط طبقہ کہاں جائے اور کیا کرے کہ جسے اپنی سفید پوشی کا بھرم بھی قائم رکھنا ہے اور با عزت طریقے سے اپنی ضروریات زندگی کو بھی پورا کرنا ہے ۔اس طبقے میں شامل وہ لوگ ہیں جو اپنی خودداری کو ہی اصل متاعِ حیات سمجھتے ہیں اور کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے پر بھوک یا بیماری سے مرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی تعلیم کے مقابلے میں کم معیار کی چھوٹی موٹی پرائیویٹ نوکریاں کر کے اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالتے ہیںجبکہ گلی محلے کی سطح پر حکومتی ہرکارے انھیں مستحقین میں بھی شمار نہیں کرتے۔باقی تمام غریبوں کے ساتھ ساتھ سب سے بڑا ستم ان پر ہوا ہے۔انہیںلوگوں میں شامل ہیں پرائیویٹ سکولوں کے ٹیچرز۔جی ہاں کہنے کو تو یہ بھی ٹیچرز یا اساتذہ کرام ہیں مگر پرائیویٹ سکولوں میں نوکری کی وجہ سے انہیں ان کی تعلیم کے مقابلے میں تنخواہ بہت کم دی جاتی ہے اور بیماری یا کسی مجبوری کے سلسلے میں چھٹی کرنے پر ان کی تنخواہ کاٹی بھی جاتی ہے۔لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان لوگوں نے جس زبوں حالی کا سامنا کیا ہے اس سے کم لوگ ہی باخبر ہیں۔
کسی بھی حکومتی ہرکارے یا صاحبِ استطاعت آدمی نے مسلسل لاک ڈاؤن کے نتیجے میں ان بیروزگار اساتذہ کی مالی مشکلات اور مصائب پر توجہ نہیں دی۔پرائیویٹ سکولوں کے بند رہنے کی وجہ سے ان تعلیم یافتہ نوجوانوں پر بیروزگاری کی وجہ سے جو قیامت ٹوٹی اور جس کرب کا انہوں نے سامنا کیا یہ صرف وہی جانتے ہیں یا ان کے اہلِ خانہ جانتے ہیںیا پھر ان کے اردگرد کے چند ایک لوگ بھی ان کی مشکلات سے واقف ہیں۔مگر مجموعی معاشرتی المیہ یہی ہے کہ فردِ واحد اس مہنگائی کے دور میں کب تک اپنے گھر والوں کے ساتھ ساتھ دوسروں کا بوجھ اٹھا سکتا ہے۔ اب جبکہ ہر چیز کی قیمت چار گنا بڑھا دی گئی ہے اور ہر کسی کے لئے اپنا پیٹ پالنا ہی دو بھر ہو چکا ہے تو کوئی کس طرح اور کب تک دوسروں کی مالی امداد کرے۔
بلاشبہ یہ مسئلہ حکومتی سطح پر حل طلب ہے اور اگر غربت اور بیروزگاری کے اس گھمبیر مسئلے پر توجہ نہ دی گئی تو پورے ملک میں ہر طرف جرائم کی تعداد میں اضافہ ہونے کا اندیشہ ہے۔جس کے نتیجے میں چوری،ڈاکہ زنی اورقتل و غارت کا کبھی نہ ختم ہونے والے ایسا سلسلہ شروع ہو گا کہ جو اس فرسودہ و غیر منصفانہ نظام کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائے گا۔اس لئے حکومتِ پاکستان سے دست بستہ گزارش ہے کہ غریبوں کے ساتھ ساتھ سفید پوش طبقے کے مالی مسائل پر بھی غور کرے اور معمولاتِ زندگی کے بحال نہ ہونے تک ان پرائیویٹ سکول ٹیچرز کو بھی سرکاری اساتذہ کی طرح گھر بیٹھے تنخواہیں دینے کا بندو بست کرے تاکہ ان کے گھروں کے بجھے ہوئے چولہے بھی دوبارہ جل سکیں۔ آئیے! سب مل کر دعا کریں کہ اللہ پاک کورونا کی منحوس وبا کو جلد از جلد کرہِ ارض سے ختم کر کے تمام رونقیں بحال فرمائے۔آمین