پاکستان جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا’ اس کے دارالحکومت اسلام آباد میں نیا مندر بنانا نہ صرف اسلام کی روح کے خلاف ہے بلکہ یہ ریاست مدینہ کی بھی توہین ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر خاتم النبیین حضرت سیدنا محمد رسول اللہ ۖ نے حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیت اللہ شریف میں موجود 360 بتوں کو توڑا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا تھا کہ ”حق آیا اور باطل مٹ گیا’ بے شک باطل مٹنے ہی والا تھا”۔ ہمارے نبی حضرت محمد ۖ نے عرب کی سرزمین کو مشرکین سے پاک کرنے کے لئے کئی غزوات بھی لڑے۔ اور ان کی رحلت کے بعدہمارے خلیفہ اکرام اور صحابہ کرام نے اسلام کی سربلندی اور بتوں سے نجات کیلئے اپنی زندگیاں وقف کر رکھی تھیں۔ ریاست مدینہ میں اقلیتوں کی جان و مال کے تحفظ کے ساتھ ان کی عبادت گاہوں کی دیکھ بھال اور اور انہیں اپنے مذہبی رسوم و رواج کی ادائیگی کی اجازات اولین ذمہ داری ہے ۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سرکاری فنڈز کو مشرکوں کے لئے مندر کی تعمیر پر لگا دیا جائے ،اور اسلام آباد جیسے شہر میں مندر کی تعمیر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔ایسی کیا مجبوری لاحق ہو گئی ہے کہ بھارت میں بابری مسجد کو شہید کر کے وہاں رام مندر کی تعمیر کا آغاز ہو چکا ہے ، اس کے علاوہ ہندوستان کی ہزاروں تاریخی مسجدیں ہندو فرقہ پر ستوں کے نشانے پر ہیں اور ہم ہیں کہ لبرل ازم اور سیکولر ازم کے پرچارک میں دنیا کو خوش کرنے میں محو ہیں۔
جناب وزیر اعظم کو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے کہ ان کے اس اسلام مخالف اقدام سے نہ تو پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالا جائے گا اور نہ ہمیںبھارت جیسی مراعات و نوازشیں کی جائے گیں۔پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور ریاست کا موجودہ امیر اسے ریاست مدینہ بنانے کی بات کرتا ہے تو پھر ایسے میں ریاست ہی کی طرف سے مندر کی تعمیر، ذومعنی بات لگتی ہے. اسلام نے غیر مسلموں کو حقوق دئیے ہیں اور ان حقوق کی حفاظت کی بھی تلقین کی ہے مگر کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ ان کے مذہب کو پروان چڑھایا جائے نبی کریم ۖ کی حیات مبارکہ میں بھی مشرک پوجا کرتے تھے ۔آپ ۖ نے انھیں دعوت اسلام تو دی مگر کبھی مذہبی دل آزاری نہیں کی۔اگر غور کریں تو یہ کام مندر کی تعمیر سے زیادہ خطرناک ہے کہ آپ مسلمان ہوتے ہوئے پوجا پاٹھ اور ہندوانہ رسومات کا پرچار کرنا شروع کر دیں. آپ کو مذہب اور ملک کا آئین اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کا کہتا ہے نہ کہ یہ کہ آپ خود اس رنگ میں ڈھل جائیں۔خیال رہے کہ اسلام آباد میں ہندو برادری کی آبادی مبینہ طور پر تقریباً 3 ہزار ہوچکی ہے، جس میں سرکاری و نجی شعبے کے ملازمین، کاروباری برادری کے افراد اور بڑی تعداد میں ڈاکٹرز شامل ہیں۔
سید پور میں فوڈ سٹریٹ کے قریب ایک ہندو مندر موجود ہے جس کی تزئین و آرائش چند سال قبل ہوئی۔ لیکن پارلیمانی سیکرٹری برائے انسانی حقوق لال چند ملہی نے حکومت اور وزیر اعظم عمران خان کو یہ تاثر دے کر کہ وفاقی دارالحکومت میں ہندو برادری کی عبادت گاہ ہے نہ شمشان گھاٹ’ ایک نئے مندر کی سرکاری خرچے پر تعمیر کا منصوبہ منظور کرا لیا۔ایک اخباری اطلاع کے مطابق وفاقی وزیر نور الحق قادری مذہبی ہم آہنگی پارک کے نام سے ایک ہی علاقے میں تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کی تعمیر کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مسجد’مندر’ گرجا گھر’ گوردوارہ ‘ کنیسیہ وغیرہ وغیرہ ایک ساتھ’ دیوار بدیوار۔ اقلیتوں کے حقوق اور جدید ریاست کے تقاضے اپنی جگہ لیکن ایک حقیقی کلمہ گو شہری اور حکمران کا مقصد حیات محض امریکہ’ یورپ اور ملک میں لامذہب و لادین حلقوں کی خوشنودی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب ۖ کی تعلیمات پر کاربند رہنا اور اپنی عاقبت سنوارنا ہے۔
گذشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان نے وفاقی دارالحکومت میں پہلے مندر کی تعمیر کے لیے 10 کروڑ روپے کی گرانٹ کی منظوری دی تھی، یہ منظوری وزیر برائے مذہبی امور پیر نور الحق قادری کی وزیراعظم سے ملاقات میں گرانٹ کے لیے کی گئی درخواست کے بعد سامنے آئی تھی۔ اس سے قبل 23 جون کو ایچ 9 ایریا میں دارالحکومت کے پہلے مندر کی تعمیر شروع کرنے کے لیے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب منعقد ہوئی تھی۔ پارلیمانی سیکرٹری برائے انسانی حقوق لال چند ملہی کی جانب سے مندر کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا۔ اسلام آباد ہندو پنچایت نے مذکورہ مندر کا نام شری کرشنا مندر رکھا ہے اور وہی اس کے انتظام دیکھے گی۔ یہ بات مدنظر رہے کہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے حکم پر 2017ء میں سی ڈی اے کی جانب سے اسلام آباد کے ایچ 9/2 میں 20 ہزار اسکوائر فٹ کا پلاٹ ہندو پنچایت کو دیا گیا تھا۔ تاہم سائٹ میپ، سی ڈی اے اور دیگر متعلقہ اتھارٹیز سے دستاویزات کی منظوری سمیت دیگر رسمی کارروائیوں کے پورے ہونے میں تاخیر کی وجہ سے تعمیرات کام شروع نہیں ہوسکا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت میں مندر کی تعمیر کے خلاف دائر کی گئیں مزید دو درخواستوں کو غیر موثر قرار دیکر نمٹا دیا ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس نے درخواستوں پر سماعت کی، عدالت نے کہا کہ اس نوعیت کی درخواستیں پہلے ہی غیر موثر ہو چکی ہیں۔وکیل درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ میری درخواست پہلے کی درخواستوں سے مختلف ہے، اسلامی نظریاتی کونسل صرف سرکاری فنڈز کا معاملہ دیکھ رہی ہے، مندر کیلئے پلاٹ کی الاٹمنٹ کا معاملہ بھی اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوایاجائے۔جسٹس نے کہا کہ فی الوقت کچھ نہیں ہو رہا، کام رکا ہوا ہے، اس سے متعلق سی ڈی اے کو فیصلہ کر لینے دیں، قانون کی خلاف ورزی ہوئی توہوسکتاہیسی ڈی ایخودالاٹمنٹ منسوخ کردے۔انہوں نے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل، سی ڈی اے کے فیصلوں کے بعد بھی شکایت ہو تو عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں۔واضح رہے کہ اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کو رکوانے کے لیے درخواستیں دائر کی گئی تھیں اور مندر کی تعمیر رکوانے کے لیے اس نقطے کو بنیاد بنایا گیا تھا کہ مندر کی تعمیر اسلام آباد کے ماسٹر پلان میں شامل نہیں ہے۔ قبل ازیںاسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت میں مندر کی تعمیر کے خلاف درخواستوں کو غیر مؤثر قرار دیتے ہوئے عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ حکومت نے مندر کی تعمیر کے لیے فنڈز جاری ہی نہیں کیے جبکہ کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی ( سی ڈی اے) نے ابھی تک بلڈنگ پلان کی منظوری نہیں دی۔