ملک شام کے بادشاہ سلطان نور الدین زنگی کے دور میں مسیحیوں نے 557 ھ میں سازش تیار کی تھی ۔سلطان نور الدین زنگی کے مشیر کا نام جمال الدین اصفہانی تھا۔ ایک رات نمازِ تہجّد کے بعد سلطان نور الدین زنگی نے خواب میں دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو سرخی مائل رنگت کے آدمیوں کی طرف اشارہ کرکے سلطان سے کہہ رہے ہیں کہ ”مجھے ان کے شر سے بچاؤ۔” سلطان ہڑبڑا کر اٹھا۔ وضو کیا’ نفل ادا کیے اور پھر اس کی آنکھ لگ گئی۔ خواب دیکھنے کے بعد آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ اس کا اب کسی سے ذکر نہ کریں اور فوراً مدینہ روانہ ہوجائیں۔ ” اگلے روز سلطان نے بیس مخصوص افراد اور بہت سے تحائف کے ساتھ مدینہ کے لیے کوچ کیا اور سولہویں روز شام کے وقت وہاں پہنچ گیا۔
سلطان نے روضہ رسول پر حاضری دی اور مسجدِ نبوی میں بیٹھ گیا۔ اعلان کیا کہ اہل مدینہ مسجد نبوی میں پہنچ جائیں جہاں سلطان ان میں تحائف تقسیم کرے گا۔ لوگ آتے گئے اور سلطان ہر آنے والے کو باری باری تحفہ دیتا رہا۔ اس دوران وہ ہر شخص کو غور سے دیکھتا رہا لیکن وہ دو چہرے نظر نہ آئے جو اسے ایک رات میں تین بار خواب میں دکھائے گئے تھے۔ سلطان نے حاضرین سے پوچھا۔ ”کیا مدینہ کا ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے۔؟” جواب اثبات میں تھا۔ سلطان نے پھر پوچھا۔ ”کیا تمہیں یقین ہے کہ ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے؟” اس بار حاضرین نے کہا۔ ”سوائے دو آدمیوں کے۔ ” راز تقریباً فاش ہوچکا تھا۔………. سلطان نے پوچھا۔ ”وہ کون ہیں اور اپنا تحفہ لینے کیوں نہیں آئے۔؟” بتایا گیا کہ یہ مراکش کے صوم و صلوٰة کے پابند دو متقی باشندے ہیں۔ دن رات رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود سلام بھیجتے ہیں اور ہر ہفتے مسجدِ قبا جاتے ہیں۔
فیاض اور مہمان نواز ہیں۔ کسی کا دیا نہیں لیتے۔ سلطان نے کہا۔ ”سبحان اللہ!” اور حکم دیا کہ ان دونوں کو بھی اپنے تحائف وصول کرنے کے لیے فوراً بلایا جائے۔ جب انہیں یہ خصوصی پیغام ملا تو انہوں نے کہا۔ ”الحمد للہ! ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے اور ہمیں کسی تحفے تحائف یا خیر خیرات کی حاجت نہیں۔ ” جب یہ جواب سلطان تک پہنچایا گیا تو اس نے حکم دیا کہ ان دونوں کو فوراً پیش کیا جائے۔ حکم کی فوری تعمیل ہوئی۔ ایک جھلک ان کی شناخت کے لیے کافی تھی تاہم سلطان نے اپنا غصہ قابو میں رکھا اور پوچھا۔ ”تم کون ہو۔.؟ یہاں کیوں آئے ہو؟” انہوں نے کہا ”ہم مراکش کے رہنے والے ہیں۔ حج کے لیے آئے تھے اور اب روضہ رسول کے سائے میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ ” سلطان نے سختی سے کہا۔ ”کیا تم نے جھوٹ بولنے کی قسم کھا رکھی ہے؟” اب وہ چپ رہے۔ سلطان نے حاضرین سے پوچھا۔ یہ کہاں رہ رہے ہیں؟” بتایا گیا کہ روضہ نبوی کے بالکل نزدیک ایک مکان میں جو مسجدِ نبوی کے جنوب مغرب میں دیوار کے ساتھ تھا۔ سلطان فوراً اٹھا اور انہیں ساتھ لے کر اس مکان میں داخل ہو گیا۔
سلطان مکان میں گھومتا پھرتا رہا۔ اچانک نئے اور قیمتی سامان سے بھرے ہوئے اس مکان میں اس کی نظر فرش پر پڑی ہوئی ایک چٹائی پر پڑی۔ نظر پڑنی تھی کہ دونوں مراکشی باشندوں کی ہوائیاں اڑ گئیں۔ سلطان نے چٹائی اٹھائی۔ اس کے نیچے ایک تازہ کھدی ہوئی سرنگ تھی۔ سلطان نے گرج کر کہا۔ ”کیا اب بھی سچ نہ بولو گے؟؟؟” ان کے پاس سچ کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ مسیحی ہیں اور ان کے حکمراں نے انہیں بہت سا مال و زر اور ساز و سامان دے کر حاجیوں کے روپ میں مراکش سے اس منصوبے پر حجاز بھیجا تھا کہ وہ کسی نہ کسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسدِ اقدس روضہ مبارک سے نکال کر لے آئیں۔ اس ناپاک منصوبے کی تکمیل کے لیے انہوں نے حج کا بہانہ کیا اور اس کے بعد روضہ رسول سے نزدیک ترین جو مکان کرائے پر مل سکتا تھا’ وہ لے کر اپنا مذموم کام شروع کر دیا۔
ہر رات وہ سرنگ کھودتے جس کا رخ روضہ مبارک کی طرف تھا اور ہر صبح کھدی ہوئی مٹی چمڑے کے تھیلوں میں بھر کر جنّت البقیع لے جاتے اور اسے قبروں پر بکھیر دیتے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی ناپاک مہم بالکل آخری مراحل میں تھی کہ ایک رات موسلادھار بارش کے ساتھ ایسی گرج چمک ہوئی جیسے زلزلہ آ گیا ہو اور اب جب کہ ان کا کام پایہ تکمیل کو پہنچنے والا تھا تو سلطان نہ جانے کیسے مدینے پہنچ گئے۔ سلطان ان کی گفتگو سنتے جاتے اور روتے جاتے اور ساتھ ہی فرماتے جاتے کہ ”میرا نصیب!!! کہ پوری دنیا میں سے اس خدمت کے لیے اس غلام کو چنا گیا” سلطان نور الدین زنگی نے حکم دیا کہ ان دونوں کو قتل کر دیا جائے اور روضہ مبارک کے گرد ایک خندق کھودی جائے اور اسے پگھلے ہوئے سیسے سے پاٹ دیا جائے تاکہ آئندہ کوئی بدبخت ایسی مذموم حرکت کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے۔
مذکورہ بالا واقعہ 558ھ (مطابق 1142ئ) کا ہے۔. (یہ واقعہ مدینہ کی تاریخ کی تقریباً تمام کتب میں موجود ہے۔ اس کا ذکر شیخ محمد عبد الحق محدث دہلوی علیہ رحمہ نے بھی اپنی کتاب ”تاریخ مدینہ” میں تین بڑی سازشوں کے ساتھ کیا ہے جس میں سے یہ واقعہ سب سے مشہور ہے۔)تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ سلطان نور الدین زنگی بہادری میں اپنے باپ کی طرح تھا۔ ایک مرتبہ جنگ میں اسے دشمنوں کی صف میں بار بار گھستے دیکھ کر اس کے ایک مصاحب قطب الدین نے کہا: ”اے ہمارے بادشاہ! اپنے آپ کو امتحان میں نہ ڈالئے اگر آپ مارے گئے تو دشمن اس ملک کو فتح کر لیں گے اور مسلمانوں کی حالت تباہ ہو جائے گی”۔ نور الدین نے یہ بات سنی تو اس پر بہت ناراض ہوا اور کہا: ”قطب الدین! زبان کو روکو، تم اللہ کے حضور گستاخی کر رہے ہو۔ مجھ سے پہلے اس دین اور ملک کا محافظ اللہ کے سوا کون تھا؟”۔سلطان نور الدین زنگی نے شریعت کی خود پابندی کی اور اپنے ساتھیوں کو بھی پابند بنایا۔ انہیں دیکھ کر دوسروں نے تقلید کی جس کی وجہ سے عوام میں اسلام پر عمل کرنے جذبہ پیدا ہو گیا اور لوگ خلاف ِشرع کاموں کے ذکر سے بھی شرماتے۔
سلطان نور الدین زنگی نے سلطنت میں مدرسوں اور ہسپتالوں کا جال بچھا دیا۔ ، بیت المال کا روپیہ کبھی ذاتی خرچ میں نہیں لایا۔ مال غنیمت سے اس نے چند دکانیں خرید لیں تھیں جن کے کرائے سے وہ اپنا خرچ پورا کرتا تھا۔ اس نے اپنے لیے بڑے بڑے محل تعمیر نہیں کیے بلکہ بیت المال کا روپیہ مدرسوں، شفاخانوں اور مسافر خانوں کے قائم کرنے اور رفاہ عامہ کے دیگر کاموں میں صرف کرتا۔ دمشق میں ایک شاندار شفاخانہ قائم کیاجو دنیا میں مثال تھا۔ مریضوں کو ادویات مفت ،کھانے اور رہنے کا خرچ بھی حکومت کی طرف سے ادا کیا جاتا تھا۔سلطان نور الدین زنگی نے تمام ناجائز ٹیکس موقوف کردیے تھے۔ وہ مظلوموں کی شکایت خود سنتا اور اس کی تفتیش کرتا تھا۔ نور الدین کی ان خوبیوں اور کارناموں کی وجہ سے اس زمانے کے ایک غیر جانبدار معروف مورخ ابن اثیر نے لکھا ہے کہ:”میں نے اسلامی عہد کے حکمرانوں سے لے کر اس وقت تک کے تمام بادشاہوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا لیکن خلفائے راشدین اور عمر بن عبد العزیز کے سوا نور الدین سے زیادہ بہتر فرمانروا میری نظر سے نہیں گزرا”۔
سلطان نور الدین زنگی۔ ابو القاسم محمود ابن عماد الدین زنگی زنگی سلطنت کے بانی عماد الدین زنگی کا بیٹا تھا جس نے تاریخ میں بڑا نام پیدا کیا۔ سلطان نور الدین زنگی فروری 1118ء میں پیدا ہوا اور 1146ء سے 1174ء تک 28 سال حکومت کی۔۔ شروع میںسلطان نور الدین زنگی کا دار الحکومت حلب تھا۔ 549ھ میں اس نے دمشق پر قبضہ کرکے اسے دار الحکومت قرار دیا۔ اس نے صلیبی ریاست انطاکیہ پر حملے کرکے کئی قلعوں پر قبضہ کر لیا اور بعد ازاں ریاست ایڈیسا پر مسلمانوں کا قبضہ ختم کرنے کی عیسا ئیوں کی کوشش کو بھی ناکام بنا دیا۔ دوسری صلیبی جنگ کے دوران دمشق پر قبضہ کرنے کی کوششوں کو بھی سیف الدین غازی اور معین الدین کی مدد سے ناکام بنا دیں اور بیت المقدس سے مسیحیوں کو نکالنے کی راہ ہموار کردی۔
دوسری صلیبی جنگ میں فتح کی بدولت ہی مسلمان تیسری صلیبی جنگ میں فتح یاب ہوکر بیت المقدس واپس لینے میں کامیاب ہوئے۔ اس زمانے میں مصر میں فاطمی حکومت قائم تھی لیکن اب وہ بالکل کمزور ہو گئی تھی اور مصر چونکہ فلسطین سے ملا ہوا تھا اس لیے مسیحی اس پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ یہ دیکھ کر سلطان نور الدین زنگی نے اپنی فوج کا ایک دستہ بھیج کر 564ء میں مصر پر بھی قبضہ کر لیا اور فاطمی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔
مصر پر قبضہ کرنے کے بعد نور الدین نے بیت المقدس پر حملہ کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ بیت المقدس کی مسجد عمر میں رکھنے کے لیے اس نے اعلیٰ درجے کا منبر تیار کروایا۔ اس کی خواہش تھی کہ فتح بیت المقدس کے بعد وہ اس منبر کو اپنے ہاتھوں سے رکھے گا لیکن خدا کو یہ منظور نہ تھا۔ نور الدین ابھی حملے کی تیاریاں ہی کر رہا تھا کہ زنگی کو حشاشین نے زہر دے دیا جس سے ان کے گلے میں سوزش پیدا ہوگئی جو کے ان کی موت کا باعث بنی۔ 15 مئی 1174ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔ انتقال کے وقت نور الدین کی عمر 58 سال تھی۔