واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی اخبار “واشنگٹن پوسٹ” نے ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن پر کڑی تنقید کرتے ہوئے انہیں ایک ڈکٹیٹر قرار دیا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ ایردوآن عوامی مقبولیت کھو چکے ہیں۔ اپنے منتخب مخالفین ، نقادوں اور دیگر کو گالیاں دیتے ہیں۔ وہ اپوزیشن جماعتوں سےتعلق رکھنے والے میئروں کو کچلنے اور انہیں دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکی اخبار کے مطابق ایردوآن کے دور میں ترکی میں جمہوریت کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ خود ایردوآن کی اپنی عوامی مقبولیت بھی ختم ہو چکی ہے۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ایک کرد نواز ترک میئر ایھان بیلگن کا انٹرویو کیا۔ انہوں نے کہا کہ ترک صدر طیب ایردوآن اور ان کی جماعت کے اقتدار کی موجودگی میں کردوں کے حامی کسی شخص کا اپنے عہدے پر قائم رہنا مشکل ہو گیا ہے۔ انہیں ہروقت یہ کھٹکا لگا رہتا ہے کہ انہیں کسی بھی وقت گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
خیال رہے کہ رواں سال مارچ میں ترکی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں کے 65 امیدواروں نے بلدیاتی کونسلوں کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ بعد ازاں ترکی کی حکمران جماعت آق نے 10 کونسلوں کےسوا باقی تمام کو اپنے کنٹرول میں لے لیا اور کم سے کم 20 میئروں کو حراست میں لیا گیا ہے۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 2016 میں ناکام بغاوت کے الزامات کے بعد حزب اختلاف کی جماعتوں ، سول سوسائٹی کے گروپوں اور ایردوآن کے لیے ناپسندیدہ افراد کے خلاف ترکی کا کریک ڈاؤن تیز ہو گیا ہے۔
لیکن بہت سے منتخب میئروں کی برطرفی، جو لاکھوں ووٹرز کی خواہش کی نمائندگی کرتے ہیں. ملک میں جمہوریت کو درپیش خطرات کا ایک واضح مظاہرہ تھا۔ انسانی حقوق کے گروپوں، تجزیہ کاروں اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان کے مطابق حکومت نے اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے میئروں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ہے۔
پارٹی کے زیر انتظام میونسپلٹیوں کو نشانہ بنانا ترکی کی سیاست کی ایک خصوصیت بن گیا ہے۔ یہ سلسلہ سنہ 2016 کے بعد سے مزید تیز ہو گیا ہے.
مشرقی ترکی کے کارس کے میئر بلگین کہتے ہیں کہ جب ہم ہر رات سونے جاتے ہیں تو ہمیں بی حفاظت صبح کا یقین نہیں ہوتا بلکہ ہر وقت اپنی گرفتاری کا کھٹکا لگا رہا ہے۔ کردوں کے حامی میئروں کی حکومت کا تعاقب حکومت کی حکمت عملی ہے۔
واشنگٹن میں مشرق وسطی انسٹی ٹیوٹ میں ترکی کے پروگرام کے ڈائریکٹر گونول ٹول نے کہا کہ ایک الٹرا نیشنلسٹ پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنے کے بعد ایردوآن کی ایچ ڈی پی مخالف پالیسی زیادہ شدت اختیار کر گئی ہے لیکن اس کے باوجود اس شراکت سے صدر کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ صدر اب کافی مشکل میں ہیں۔ دوسری طرف ترک حکام انکار کرتے ہیں کہ اے کے پارٹی کے خلاف ان کے اقدامات سیاسی انتقام پرمبنی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ محض ایک قانونی مسئلہ ہے اور حکومت آئین کی بالادستی کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔