جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہر دور کے اپنے کچھ تقاضے اور اپنی کچھ ضروریات ہوتی ہیں جن کے مطابق چلنا کچھ لوگوں کے لئے تو جدت یا فیشن کا درجہ رکھتا ہے اور کچھ لوگوں کی مجبوری بن جاتا ہے کیونکہ وقت کے ساتھ نہ چلنے والوں کو جاہل ،دقیانوسی اور غیر مہذب قرار دے دیا جاتا ہے جبکہ گزرے ہوئے دور کے تقاضوں کو ساتھ لے کر چلنا تو جوئے شیر لانے کے مترادف ہے کیونکہ ایسے لوگوں کو تو بعض اوقات جدت پسند لوگ ذہنی طور پر کھسکے ہوئے کہنے سے بھی گریز نہیں کرتے مگر یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ وقت جیسا بھی ہو اس کے گزر جانے کے بعد اسے ہمیشہ اچھا ہی قرار دیا جاتا ہے بالکل اسی طرح جیسے کسی انسان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد اس کی تعریف کی جاتی ہے بھلے اس نے اپنی زندگی میں کوئی قابل تعریف عمل نہ ہی کیا ہو،بہرحال گزرا ہوا وقت یا ماضی ایک ایسی چیز ہے جسے ہمیشہ حال اور مستقبل کے مقابلے میں بہتر سمجھا جاتا ہے اور یہی فطرتِ انسانی ہے۔
جیسے جیسے وقت بدلتا ہے اس کے تقاضے بھی بدل جاتے ہیں اور انسان خود بخود نئے دور کے تقاضوں میں ڈھلتا چلا جاتا ہے۔آئیے! پیار،محبت اور عشق کے حوالے سے ماضی و حال کا موازنہ کرتے ہوئے کچھ دلچسپ معاملات پر روشنی ڈالتے ہیں،تو پتہ چلتا ہے کہ محبوبہ کے لئے محبوب کی طرف سے محبت بھرا تحفہ ”رومال”ہوا کرتا تھا جسے خوشبو میں بسا کر ایک خط یا محبت نامے کے ساتھ بڑی ہی رازداری سے ”منزلِ مقصود”تک پہنچایا جاتا تھااور محبوبہ اس تحفے کو پا کر پھولے نہیں سماتی تھی اور بعد ازاں اس رومال اور محبت نامے کو سب کی نظروں سے بچا کر اپنے پاس رکھناہی اس کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد بن جایا کرتا تھا۔اگر کوئی محبوبہ یا معشوقہ سگھڑ ہوتی تو وہ بھی ایک رومال پراپنے ہاتھوں سے پھول کاڑھ کر یا کشیدہ کاری کے ذریعے کوئی شعر لکھ کر جوابی محبت نامے، رقعے،چٹھی یا خط کے ساتھ اپنے محبوب کو بھجواتی تھی اور بعض اوقات یہ رومال یا خط پکڑے جانے پر اہلِ خانہ کی طرف سے دونوں” فریقین” کی خوب ”خاطر تواضع”بھی ہو جایا کرتی تھی۔اس کے علاوہ ڈائری بھی محبت کی نشانی کے طور پر ایک دوسرے کو دی جاتی تھی اور گاؤں دیہات میں محبوب کی طرف سے بھجوایا گیا خوبصورت پراندہ یا رنگ برنگی چوڑیاں ہی محبوبہ کی کل کائنات ہوا کرتے تھے۔
مگرہائے ری ترقی ۔۔تیرا ستیاناس کہ جب سے” رومال” کی جگہ ”ٹشو پیپر” اور خط کی جگہ میسج نے لے لی ہے، تب سے انسان وقت کی کمی کا شکار ہو کر رہ گیا۔زندگی مشینی سی ہو گئی،اب نہ تو جذبوں میں وہ اِخلاص رہا جو پہلے ہوا کرتا تھا اور نہ تعلقات میں والہانہ پن۔صبر اُڑ گیا۔ محبتیں کاغذی سی ہو کر رہ گئیں۔رشتے دلوں سے نکل کر پرس اور بٹوے میں قید ہو گئے جس کی جیسی مالی حیثیت اس کے اتنے ہی مضبوط یا کمزور رشتے۔ہر طرف عجیب سی بے برکتی ہے۔
مادی اشیا ء کی چاہت نے مرد و عورت دونوں کو اپنے پنجوں میں جکڑ لیاہے ،ہجر و فراق کی آگ میں جل کر خود کو راکھ کر دینے کی باتیںقصہ پارینہ بن چکیں ۔محبت میں دئیے گئے تحفوں کو ان کی قیمت کے حساب سے پرکھا جانے لگا۔ ”رومال ”کی جگہ ”موبائل فون ”نے لے لی ۔ایک دوسرے سے کپڑے جوتے یا پیسے مانگنا لوگوں کا معمول بن گیا۔”ایزی لوڈ ”کا بھیجا جانا سچی محبت کا سب سے بڑا ثبوت قرار دیا جانے لگا…خط و کتابت کی جگہ ”برقی میسنجر ”نے لے لی جن کو پڑھنے اور لکھنے کے بعد ایک سیکنڈ میں ڈیلیٹ کر کے بے فکری کی نیند سونے والے کیا جانیں کہ محبوب کے خط کو کتابوں یا ڈائری میں چھپا چھپا کر رکھنے کا لطف کیا ہوا کرتا تھا۔اب تو اس افراتفری کے دور میں محبت کی ہیئت ہی بدل کر رہ گئی۔مرد اور عورت عملی میدان سے انٹر نیٹ (سوشل میڈیا )کے پلیٹ فارم تک ساتھ رہنے کے باوجود ”آپسی تعلق ”کو کوئی بھی نام دینے سے قاصر ہیں اور اسی ابہام کے پیشِ نظر مختلف مواقع یا صورتحال کی نوعیت کے لحاظ سے کبھی محبت کو دوستی کا نام دیا جاتا ہے تو کبھی دوستی کو محبت کا۔
المیہ یہ ہے کہ کہیں پر برانڈڈ کپڑے ،پرس ،جوتے ،جیولری وصول کرنے کے بعد بھی محبوبہ خوش نہیں ہے تو کہیں محبوب کی نظر محبوبہ کی تنخواہ یا دولت پر لگی ہوتی ہے۔مگر ایک بات جو واضح ہے کہ دونوں ہی چند روزہ محبت کے بعد ایک دوسرے سے ناخوش اور بیزار سے نظر آنے لگتے ہیں۔
جدید دور میں محبت کے حوالے سے جہاں مرد و عورت کی ترجیحات بدلیں، وہیں اس کے سنگین نتائج بھی سامنے آئے،مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا نفسا نفسی کے اس دور میں رہتے ہوئے ہم یہ تصور کر سکتے ہیں کہ ہماری آئندہ نسلیں اس دور کو کبھی سنہری دور کہہ سکیں گی۔اگر کبھی اس دور کو اچھا دور کہا گیا تویہ بات سوچ کر آپ بھی انگشت بدنداں ہوں گے کہ آنے والا دور کیسا ہو گا کہ جس کے آگے یہ دور اچھا مانا جائے گا..شاید آنے والے دور کے بچے یا جوان بھی موجودہ دور کے ان نوجوانوں کا یقین نہیں کریں جو کہ مستقبل میں عمر رسیدہ یا بوڑھے کہلائیں گے۔
بالکل اسی طرح جس طرح ہم اپنے بڑوں سے ستر(70) روپے تولہ سونا اور چار (4)روپے من گندم کا سن کر حیرت اور بے یقینی کے دریا میں غرق ہونے لگتے تھے اور بار بار ایک ہی چیز کے دام پوچھ کر ڈانٹ کھاتے تھے مگر ذہن میں کیا، کیوں، کب اور کیسے کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا تھا۔کون جانے کہ آنے والا دور کیسا ہو گا۔۔؟شاید میں اور آپ اس دنیا سے جا چکے ہوں گے۔مگر جو لوگ موجود ہوں گے وہ یقینا ہمیں بھی اچھے دور میں جینے والے خوش قسمت انسان ہی قرار دیں گے،جس طرح ہم اپنے سے پہلے گزر جانے والے لوگوں کو خوش قسمت قرار دیتے ہیں۔اللہ پاک کرہ ارض کے ساتھ ساتھ تمام انسانوںاورچرند،پرندکی خیر کرے…آمین