جب جمہورہی کی عقلیں مردار ہو جائیں، پبلک میں شخصیت پرستی کا عنصر غالب آجائے تو قومیں حق و سچ سے عاری ہو جاتی ہیں۔پھر ہر زمانے کی ہر تہذیب کے ہر مُلک اور معاشرے اور اقوام میں جھوٹ پوری قوت سے پنپتا ہے۔ جھوٹ پر قائم ریاستیں اور قومیں تباہ وبربادہوجاتی ہیں۔ علم و عمل کا سلسلہ رک جاتا ہے ۔ایسے مُلک اور معاشرے میں قلم اور قرطاس کا استعمال سچے افراد کے لئے ناپید ہوجاتا ہے۔جھوٹ کا سہارا لے کر جھوٹے جس طرح چاہتے ہیں۔ حق اور سچ کے علمبرداروں کو گردن سے دپوچ لیتے ہیں۔یہاں اظہارِ رائے کا فقدان کا پیداہونا یقینی ہوجاتا ہے اور جھوٹوں کا معاشروں میں راج قائم ہوجاتاہے۔جب معاشرے میں سچ ناپید ہوجاتا ہے۔ تو نسلیں بھی مر جایا کرتی ہیں۔ جہاں نسلیں مرجائیں۔ تو وہاں صدیوں تک بہتری کے اثرات پیدا نہیں ہوتے ہیں۔ قومیں جھوٹوں کے سائے میں پرواں چڑھ کر سچ و حق کو منوں مٹی تلے دفن کردیتی ہیں۔ پھر سچ و حق اور میرٹ کا قتلِ عام ہوناکوئی معیوب بات نہیں رہتی ہے۔ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ سچ اور حق کا گلا گھونٹ کر بننے اور قائم رہنے والی ریاستیں اور اقوام بھی فنا ہوکر نشانِ عبرت بن جا یا کرتی ہیں
آج بدقسمتی سے 22یاساڑھے بائیس کروڑپاکستانیوں سے بھی سچ و حق کی دوڑی چھین کر کاٹی جارہی ہے ۔جمہورکو بے ثمر جمہوریت کا جھانسہ دے کر آزادی اظہارِ رائے کا حق چھینا جارہاہے۔ یہ کیسی کمزور جمہوریت ہے؟ جوعاشقانِ قلم و قرطاس اورحق و سچ کے علمبرداروں کو ہی دبا رہی ہے۔ اپنا حکم ِمکروہ چلا کرزبردستی عاشقانِ حق و سچ سے اپنی مرضی سے صرف اپنے ہی قصیدے لکھوانے اور پڑھوانے کے لئے ساری مشینری استعمال کرنے سے بھی دریغ نہیں کررہی ہے۔
آہ ، آج ہمارے یہاں یہ کیسی جمہوریت ہے؟ جس میں آئینے بھی اُلٹاعکس دِکھارہے ہیں ۔سورج کا رُخ بھی پھیرنے والے بھی میدان میں اُترے ہوئے ہیں جو اپنی پوری طاقت سے سورج کو پھیرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ کیسی جمہوریت ہے؟ جو بے ثمر کی امر بیل کی طرح پنپ رہی ہے یا کوئی خفیہ طاقت یا نظرنہ آنے والا کوئی ہاتھ اِسے بے دلی سے آبیاری کررہاہے۔ آج تب ہی کہنے کو اِس لولے لنگڑے جمہوری معاشرے میں سّچابھوکا اور جھوٹے کا پیٹ بھراہوا ہے۔ گلے تک بحرانوں میں گھیرے لاغر جمہوربے ثمر جمہوریت میں گھٹ گھٹ کر سانس لے رہے ہیں۔ایسے میں یہ بھی کوئی ضروری نہیں کہ ہر سانس لینے والی شے حقیقی معنوں میں زندہ بھی ہو۔
پاکستان میں جمہور اور جمہوریت کا ایک خاص مسئلہ یہ بھی ہے جمہور دراصل جمہوریت کے حقیقی معنی اور اپنی طاقت سے ناواقف ہیں۔ تب ہی نام نہاد اور غیر جمہوری مائنڈسیٹ کو جمہوریت کا نام لے کر جمہورکو بہلاکر اورسبزباغ دِکھاکر اپنی مرضی کی ہلکی پھلکی جمہوریت نفاذ کرنے سے لے کر عوام کو لٹو کی طرح گھومانے کا موقعہ مل جاتاہے۔
جمہورکو اپنی طاقت کا اندازہ نہیں ہے کہ یہ کتنے طاقت ور ہیں۔ عوام کی مثال کھوٹے میں بندھے اُس ہاتھی کی طرح ہے۔ جواِس غلط فہمی میں مبتلا رہتاہے کہ یہ جس زنجیر کے سہارے چھوٹے سے کھوٹے سے باندھا ہے یہ لکڑی کا کھوٹا اِس سے زیادہ طاقت ور ہے۔ جب کہ زمین میں دھنسا لکڑی کا کھوٹا ہاتھی کی طاقت کے سامنے عشرے عشیرے بھی نہیں ہوتاہے۔اگر عوام ہوش میں آجائیں۔ تو پھر اِنہیں اپنی طاقت کا بھی اندازہ ہوجائے گا ۔جمہورکو ساتھ ہی لگ پتہ جائے گا کہ جمہوریت کا نام لے کر اِن کو بے ثمر جمہوریت سے کون کس طرح محروم رکھے ہوئے ہے۔ پھر دیکھنا کہ مُلک میں جمہور کو اپنا حقیقی حق اور ثمرِ جمہوریت کیسے نہیں حاصل ہوتا ہے اور نام نہاد اور غیر جمہوری مائنڈسیٹ کس طرح دیوار سے لگ جائیںگے۔ مگر افسوس ہے کہ ہمارے یہاں ایسے ہی لاکھوں نام نہاد اور غیر جمہوری مائنڈ سیٹ والے عوام تک جمہوری ثمرات پہنچانے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
کیا اَب جمہور پر یہ لازم نہیں ہے کہ یہ اپنی عقلوں کی خود آبیاری کریں ۔اپنی آنکھوں پر بندھی شخصیت پرستی اور ذاتی اَنا کی سیاہ پٹی کو کھینچ کر اُتار پھیکیں ۔عوام جمہوریت کی فارم ہاوس میں اپنے ہی ہاتھوں سے آبیاری کریں ۔یوں یہ جمہوریت کی لولی پاپ دے کر غیر جمہوری طریقوں سے آزادی اظہارِ رائے پر قدغن لگانے والوں سے اپنا حقیقی حق چھین لیں ۔حکمران ہوش کے ناخن لیں ۔ عوام میں پیداہونے والے جمہوری اور جمہوریت کے اضطراب پن کو سمجھیں۔ اَب وقت آگیاہے کہ حکمران اور غیر جمہوری مائنڈ سیٹ کے حامل طبقات دوقدم آگے بڑھ کرعوام کو گلے لائیں۔ خوش اخلاقی سے جمہوری ثمرات عوام الناس کو منتقل کریں۔ اِسی میں مُلک اور قوم کی حقیقی ترقی پہناں ہے۔ ورنہ ؟ ایسے غیر جمہوری سسٹم میں یوں ہی سیراب اور خوابوں میں جمہوری چہ میگوئیاں کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔کیوں کہ جمہور بیدار ہورہے ہیں کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ نام نہاد اور غیرجمہوری مائنڈ سیٹ اپنے ہی کئے پر خود ہی قصہ پارینہ بن جائیں۔(ختم شُد)
Azam Azim Azam
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com