دَورِ جدید میں کچھ اصحاب ایسے جن کے خمیر میں استہزا گُند چکا۔ اہلِ مغرب سے متاثر یہ اہلِ علم بے ثبات سایوں کو مہرِ درخشاں ثابت کرنے میں مگن۔ مشاہیرِعالم کے اقوال بیان کرتے ہوئے اُن کے چہروں پر خوشی کی تمتماہٹ دیدنی اور فصیلِ فہم پر گھمنڈ کی دبیز تہیں حالانکہ فرقانِ حمید میں کہیں بہتر انداز میں وہ سب کچھ درج کیا جا چکا۔ اللہ کا فرمان ہے ”ہم نے سب کچھ قُرآن میں درج کر دیا، اگر یہ تعصب کی عینک اتار کر دیکھیں تو اُنہیں قرآنِ مجید میں اپنے ہر سوال کا جواب مل جائے گا لیکن اِنہیں سیکولر اور لبرل کہلوانے کا شوق ہی بہت۔اب اِنہیں کون سمجھائے کہ اگر ہم لبرل ازم یا سیکولرازم کے پیروکار ہیں تو لامحالہ اللہ کے عطا کردہ کمل ضابطۂ حیات سے دور ہو جائیں گے۔
سیکولر اور لبرل بھائی جب بھی بات شروع کرتے ہیں تو اُن کا زور اِس بات پر ہوتا ہے کہ مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے۔ بجا! مگر اسلام محض مذہب نہیں، دین ہے جو مکمل نظامِ فکروعمل ہے۔ لبرل ازم کی ابتداء برطانوی فلسفی جان لاک 1704)۔1620ئ( سے ہوئی۔ اُسے لبرل ازم کا بانی قرار دیا جاتاہے۔ وہ مذہب بیزار شخص تھا اور عیسائیت کو نہیں مانتاتھا ۔ انقلابِ فرانس کے فکری راہنماء والٹیئر اور روسو، دونوں جان لاک کے فکر سے متاثر تھے اور فرانس کے قانون میں مذہبی اقدار سے آزادی کے اختیار کے قائل تھے۔جارج جیکب ہولیوک نے سیکولرازم کی اصطلاح 1851ء میں استعمال کی جو چرچ کو ریاست سے الگ کرنے کے لیے استعمال ہوئی۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق سیکولرازم ”ایک ایسی اجتماعی تحریک جو لوگوں کے سامنے آخرت کی بجائے صرف دنیا کو ہی ایک ہدف اور مقصد کے طور پر پیش کرتی ہو”۔ آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق ”سیکولر اُس رائے اور فکر کو کہتے ہیں جو اِس بات کی قائل ہو کہ دین اخلاق وتربیت کی بنیاد نہیں ہونی چاہیے”۔ ویبسٹر کی جدید عالمی ڈکشنری کے مطابق ”یہ اعتقاد کہ دینی معاملات کا حکومت اور عوام کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔ اِن تمام تعریفوں کے مطابق دین کو سیاست سے یکسر بے دخل کردیا گیا جبکہ اسلام پورے کا پورا دین میں داخل ہونے کا حکم دیتا ہے
جہاں تک ذہن میں اُٹھنے والے سوالات کا معاملہ ہے تو عرض ہے کہ یہ دنیا امتحان گاہ ہے ۔روزِازل ابلیس نے رَبِ لَم یَزل سے بَنی آدم کو بھٹکانے اور وسوسوں میں ڈالنے کی اجازت لی۔ یہی شیطانی وسوسے ہماری عقلِ محدود کو مہمیز دے کر ایسے سوالات کو جنم دیتے ہیں جو ابلیس کا مطلوب ومقصود۔ ایک انتہائی محترم اور صاحبِ بصارت وبصیرت لکھاری نے سوال اُٹھایا ہے ”مگر ہم انسان بھی کیا کریں، سوال اُٹھانے پر مجبورہیں”۔ عرض ہے کہ سوال اُٹھانا غیراسلامی ہے نہ غیرشرعی البتہ ذہن میں اُٹھنے والے ہرسوال کا جواب قُرآن میں پہلے ہی درج کر دیاگیا۔اُنہوں نے فرمایا ”میرے ایک دوست کی بیٹی ذہنی معذورہے، عمر چودہ پندرہ سال ہے۔ اپنا خیال نہیں رکھ سکتی۔ ۔۔۔۔ میرا دوست مجھ سے پوچھتا ہے کہ یہ کس کی آزمائش ہے، بیٹی کی یا والدین کی؟”۔ عرض ہے کہ جولان گاہِ ہستی کی بنیاد ہی ”آزمائش” ہے اورمقرب اور مقذف کے پیمانے بھی طے ہوچکے۔ فرقانِ حمید میں یہ بھی مفصل بیان کر دیاگیا کہ آزمائش کِن کِن طریقوں سے کی جاتی ہے۔ سورة محمد 31 میں یوں درج ہوا ”یقیناََ ہم تمہارا امتحان لیں گے تاکہ تم میں جدوجہد کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کو ظاہر کر دیں اور ہم تمہاری حالتوں کی بھی جانچ کر لیں”۔ اُسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے اور وہ زبردست بخشنے والاہے” (الملک 2 )۔
آزمائش کے سارے پیمانے فرقانِ حمید میں درج ہیں۔ارشاد ہوا ”اور تم اِس بات کو جان لو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولادیں ایک امتحان کی چیز ہیں”(سورہ الانفال 28 )۔ گویا مال اور اولاد، دونوں ہی آزمائش ہیں۔ پھر ارشاد ہوا ”ہم ضرور تمہیں خوف وخطر، فاقہ کشی، جان ومال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلاء کرکے تمہاری آزمائش کریں گے۔ اِن حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں ”ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جاناہے”۔ اُنہیں خوشخبری دے دو کہ اُن پر اُن کے رَب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی۔ اُس کی رںمت اُن پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست روہیں” (البقرہ 155 تا 157 )۔ حکمت کی عظیم الشان کتاب میں درج ”کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ اُن کے صرف اِس دعوے پر کہ ہم ایمان لائے ہیں، ہم اُنہیں بغیر آزمائے ہی چھوڑ دیں گے؟۔ اِن سے اگلوں کو بھی ہم نے خوب جانچا اور یقیناََ اللہ تعالےٰ اُنہیں بھی جانچ لے گا جو سچ کہتے ہیں اور اُنہیں بھی معلوم کر لے گا جو جھوٹے ہیں” (العنکبوت 2 )۔ صرف زبان سے اقرار ہی کافی نہیں، عمل بھی ضروری ہے۔ پھر ارشاد ہوا ”ہم امتحان کی خاطر تم میں سے ہر ایک کو برائی اور بھلائی میں مبتلاء کرتے ہیں (الانبیاء 35 )۔ ”جس حال میں تم ہو اِسی پر اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو نہ چھوڑ دے گا جب تک کہ پاک اور ناپاک کو الگ نہ کر دے۔ (آل عمران 179 )۔ قُرآنِ کریم میں اور بھی متعدد آیاتِ مبارکہ درج مگر طوالت کا خوف۔
مکررعرض ہے کہ آزمائش پر پورا اترنے والے ہی مقرب ٹھہرتے ہیں۔ اِس آزمائش سے کوئی بھی مبرا نہیں بلکہ نبیوں اور رسولوں کی آزمائش تو بہت کڑی تھی حالانکہ وہ معصوم عن الخطا ہوتے ہیں۔ حضورِ اکرم ۖ کا فرمان ہے ”سب سے پہلے انبیاء کی آزمائش ہوتی ہے، پھر صالحین کی، پھر جو اُن کے مثل اور اُن سے مشابہت رکھنے والے ہوتے ہیں”۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم النبیین حضرت محمد ۖ تک ہر نبی اور ہر رسول کو آزمائش کی اِس بھٹی سے گزارا گیا ۔ آپ ۖ پر مشرکین نے ظلم کے کون کون سے حربے استعمال نہیں کیے۔ طائف کے شرپسندوں کی سنگ باری سے آپ ۖ کے نعلین مبارک خون سے بھر گئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آتشِ نمرود میں جلانے کی کوشش کی گئی۔ اُنہیں اپنی بیوی اور نومولود بچے کو صحرائے عرب میں چھوڑنے کا حکم دیا گیا، پھر وہی بچہ (حضرت اسماعیل علیہ السلام)جب تھوڑا بڑا ہوا تو اُس کو قُربان کرنے کا حکم صادر ہوا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں، حضرت یعقوب علیہ السلام کی بیٹے کی جدائی میں رو رو کر آنکھوں کی بینائی جاتی رہی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے وطن سے فرار ہونا پڑا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مصلوب کرنے کی کوشش کی گئی۔ حضرت ایوب علیہ السلام کی اولاد اور مال ودولت، سب چھین لیے گئے۔ حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ میں ڈالا گیا۔ حضرت نوح، حضرت لوط، حضرت شعیب، حضرت یحییٰ اور دیگر انبیاء علیہ السلام میں سے کون تھا جو رَب کردگار کی آزمائش سے بچ سکا؟۔ جب رَبِ لَم یَزل اپنے مقرب ترین بندوں کی بھی آزمائش کرتے ہیں تو پھر آزمائش کو سزا کیسے تصور کیا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہی کہ جوں جوں آزمائش بڑھتی ہے، سجدے بھی طویل ہوتے جاتے ہیںاور آزمائش پر شکوہ کرنے والوں کے گناہوں میں اضافہ۔
حرفِ آخر یہ کہ قحط الرجال نے علم وحکمت کے سارے کواڑ یوں بند کر دیئے ہیںکہ کوئی ایک روزن بھی نہیں جس سے روشنی کی کرن پھوٹتی دکھائی دے۔ حق وصداقت کے علمبردار گنے چُنے اہلِ قلم کے لب بھی خاموش کہ کہیں اُن پر تضحیک واستہزاء کی نشترزنی نہ ہونے لگے حالانکہ یہ اُن کا فرضِ عین کہ وہ ابدی صداقتوں کی مشعلیں روشن کرکے بھٹکے ہوؤں کی رَہنمائی کریں۔ راہ نوردانِ شوق کسی خضر کی تلاش میں جو نوروظلمت کی تفریق سے روشناس کروا سکے۔