پاکستان میں آج کل شادیاں کیسے ہو رہی ہیں؟

Pakistan Lahore - Marriage Hall

Pakistan Lahore – Marriage Hall

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) کورونا بحران کے دوران سادگی سے ہونے والی شادیوں کی لاگت میں نمایاں طور پر کمی واقع ہو گئی ہے لیکن بعض نوجوانوں کا کہنا ہے کہ کورونا بحران کی وجہ سے شادی کے حوالے سے ان کے ارمان پورے نہیں ہو سکے۔

ایک جائزے کے مطابق پہلے سے طے شدہ شادیوں کی تقریبات کی بڑی تعداد کو کورونا بحران کی وجہ سے شادی ہالوں اور ہوٹلوں پر لگائی جانے والی حکومتی پابندی کی وجہ منسوخ کیا جا چکا ہے لیکن اس کے باوجود گھروں کے اندر سادگی سے شادی کی تقریبات منعقد کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

ایک خاتون رخسانہ طاہر کے مطابق پاکستان میں عام طور پر شادی سے متعلقہ تقریبات کی تعداد ایک درجن کے قریب ہوتی ہے، اس میں شادی کی تاریخ طے کرنے کی تقریب، ڈھولکی، مایوں، مہندی، بارات، ولیمہ اور مکلاوہ وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ لیکن کورونا کے دنوں میں شادی کی تقریبات مہندی، بارات اور ولیمے کے بہت مختصر اجتماعات تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ ان کے بقول بعض گھرانے تو مسجد میں جا کر نکاح پڑھاتے ہیں اور نئے شادی شدہ جوڑے کو دعائیں دیتے ہوئے مہمانوں کو لنچ بکس تھما کر رخصت کر دیتے ہیں۔

نوبیاہتا جوڑوں کو اچھے ریسٹورنٹس میں فیملی ڈنرز پر مدعو کرنے کی روایت بھی پاکستان میں موجود رہی ہے۔ لیکن کورونا بحران کے زمانے میں ریسٹورانٹس اور ہوٹل تو بند ہیں، اس یئے ایک طرف نئے شادی شدہ جوڑوں کو ریسٹورانٹس میں رشتہ داروں کی طرف سے کھانا کھلانے کی سہولت میسر نہیں ہے اور دوسری طرف نہ ہی ہنی مون پر جانا آسان ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب شادی ہالوں کے مالکان پاکستان میں شادی ہالوں کو کھولنے کے لیے احتجاجی تحریک چلا رہے ہیں۔ کئی سفید پوش فیملیز نے اس صورتحال میں اپنے بچوں کی شادیوں کی تاریخیں مقرر کرنا شروع کر دی ہیں۔ ٹاؤن شپ کے اشفاق احمد نے اپنے ایک بیٹے کی شادی کرنا تھی اس نے سادگی سے اپنے دو بیٹوں کو بیاہ کے شادی کی تقریب سے بچنے والے لاکھوں روپے انہی بچوں کے کاروبار کے لیے دے دیے۔

ایک نوجوان حافظ حسنین لاہور کے رہائشی ہیں۔ کورونا سے پہلے ان کے گھر میں ان کے بھائی کی شادی کی جو تقریب ہوئی تھی اس میں چار سو سے زائد مہمان مدعو کیے گئے تھے۔ اب دو روز پہلے سادگی سے ہونے والے ان کے نکاح میں صرف چند لوگوں نے شرکت کی۔ مختصر بارات کے لیے دلہن کے گھر کی چھت پر تقریب کا اہتمام کیا گیا، ” ہمارا تعلق بہاولپور سے ہے لیکن ہم نے وہاں سے کسی کو نہیں مدعو کیا، لاہور سے بھی میرے چاچو اور بہت قریبی رشتے دار ہی شرکت کر رہے ہیں۔ میں نے اپنے صرف چار دوستوں کو بلایا‘‘

حافظ حسنین کہتے ہیں کہ کورونا کہ وجہ سے انہیں شادی کے اخراجات پر کوئی بہت زیادہ بچت نہیں ہو سکی۔ سونے کی قیمت ایک لاکھ روپے فی تولہ سے بھی اوپر چلی گئی ہے، دلہن کا عروسی لباس جو عام دنوں میں پچپن ہزار کا تھا اب اڑتالیس ہزار میں ملا ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ اب انہیں چار سو مہمانوں کو کھانا نہیں کھلانا پڑے گا تو ان کا کہنا تھا کہ اس سے بھی فرق اس لیے نہیں پڑے گا کیونکہ اگر کھانا کھلاتے تو چار سو لوگوں کی سلامیوں سے تو محروم نہ ہوتے، ”میری بہت خواہش تھی کہ میں شادی کے فورا بعد اپنی اہلیہ کے ساتھ عمرے پر جاتا لیکن ان حالات میں ایسا ممکن نہیں ‘‘

طلحہ نامی ایک نوجوان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کورونا کی شادیوں نے شادی والے گھروں میں لڑائیاں شروع کروا دی ہیں۔ ان کے بقول لوگ اس بات کو نہیں مانتے کہ ان کے خاندان سے مدعو کیے جانے والے ایک فرد کو ہی شادی میں شریک ہونا ہے اور وہ اسے اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ان کے بقول پاکستان میں بچیوں کے لیے شادی بیاہ کے فنکشز خوشی کا باعث ہوتے ہیں، نوجوان بھی ہلے گلے کے لیے دوستوں کی شادیوں کا انتظار کرتے ہیں،”اب نہ بینڈ باجا، نہ آتش بازی نہ ہوائی فائرنگ۔ اب چھپ چھپا کر خوف میں کی جانے والی شادیاں کورونا سے پہلے والی شادیوں کا متبادل کیسے ہو سکتی ہیں؟ ‘‘

بعض لوگوں کے نزدیک کورونا کی وجہ سے آنے والی اقتصادی بحالی جہیز کے تقاضوں میں کمی لانے کا بھی باعث بنی ہے۔ ان کے بقول شادی کی تقریبات کو سادہ اور فضول رسموں سے پاک ہونا چاہیے۔ایک تاثر یہ بھی ہے کہ چھوٹے گھروں میں ہونے والی شادی کی تقریبات میں سماجی فاصلے کو برقرار رکھنا اور ایس او پیز پر عمل کرنا مشکل ہوتا ہے۔

شاد باغ کے محمد افضل نے بتایا کہ موجودہ صورتحال میں زیادہ تر مسائل کا سامنا غریب لوگوں کو ہے۔ ان کے بقول اس وقت شادی ہالوں کے متبادل کے طور پر ایک پوری انڈسٹری وجود میں آ چکی ہے،” کوئی بھی شخص ڈیڈھ لاکھ روپے رشوت دے کر کسی با اثر فارم ہاؤس میں شادی کی تقریب منعقد کر سکتا ہے۔‘‘ ان کے بقول ٹورازم کی کئی کمپنیاں نئے شادی شدہ جوڑوں کے لیے شمالی علاقوں کے دورے کا اہتمام بھی کر رہی ہیں۔

لاہور کے علاقے کینٹ میں واقع ایک شادی ہال کے مالک حاجی نعمت قادری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شادی ہالوں کی بندش بڑی تعداد میں لوگوں کے روزگار کو ختم کرنے کا باعث بنی ہے۔ ان کے بقول شادی ہالز کے کاروبار سے وابستہ چالیس کے قریب کاروبار بھی اس وقت ٹھپ ہو چکے ہیں۔ ان میں گوشت، سبزیاں ،چاول، آٹا سپلائی کرنے والوں کے علاوہ جنریٹر، پالکی، فوٹوگرافی، بیوٹی پارلر، ساؤنڈ سسٹم، پارکنگ اور پھولوں والے بھی شامل ہیں۔

اسلام آباد کے ایک بزنس مین عثمان علی نے بتایا کہ جن لوگوں نے شادی ہال کرائے پر لے رکھے تھے، ان کی آمدن ختم ہو جانے سے انہیں بہت نقصان ہوا ہے۔ ان کے بقول شادی ہالوں کی بندش کی وجہ سے حکومت کی ٹیکسوں کی وصولی بھی متاثر ہو رہی ہے۔