فرانس (اصل میڈیا ڈیسک) پچیس سال قبل فرانس ایک بڑے دہشت گردانہ حملے سے لرز اٹھا تھا۔ مسلم انتہا پسندوں کے اس حملے نے جہاں ایک طرف فرانسیسی سماج میں تفریق پر سے پردہ اٹھایا وہیں دہشت گردوں کی ایک نئی نسل کو بھی جنم دیا۔
ایک چوتھائی صدی قبل فرانسیسی دارالحکومت پیرس کا وسطی حصہ شام ساڑھے پانچ بجے ایک زور دار دھماکے سے لرز اٹھا تھا۔ اس دھماکے سے آٹھ افراد ہلاک اور قریب ایک سو زخمی ہو گئے تھے۔ یہ دھماکا ساں مشیل نوٹرے ڈیم میٹرو اسٹیشن پر ہوا تھا۔ دھماکے کے مقام تک فوری طور پر پہنچنے والے وزیر اعظم آلاں ژوپے اور صدر ژاک شیراک اس بات سے بے خبر تھے کہ پچیس جولائی سن 1995 کو ہونے والا یہ دھماکا، سارے ملک میں وقفے وقفے سے ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی شروعات تھی۔
ابتدائی تفتیش سے پتا چلا کہ دھماکوں میں الجزائر سے مہاجرت کرنے والے مسلمان خاندانوں کی نئی نسل کے کچھ ایسے نوجوان ملوث ہیں، جن کا تعلق ‘آرمڈ اسلامک گروپ (GIA) نامی ایک شدت پسند گروہ سے تھا۔ ان دھماکوں نے شمالی افریقی ملک الجزائر میں مسلمان انتہا پسندوں اور فوج کے درمیان جاری مسلح تحریک کو ایک طرح سے فرانس میں لا کھڑا کیا، جو اس ملک کا سابقہ حکمران بھی تھا۔
تفتیشی عمل میں فرانسیسی حکومت نے سلامتی کے تمام ادروں کو متحرک کیا۔ اس دوران کئی اقدامات اٹھائے گئے جن میں بڑے فرانسیسی شہروں کے ان مضافاتی علاقوں کی نگرانی بھی تھی جہاں مسلمان تارکین وطن کثرت سے آباد تھے۔ اسی دوران سکیورٹی اہلکار پچیس جولائی کے حملوں میں ملوث افراد کے گرد گھیرا تنگ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ سبھی الجزائر میں پیدا ہونے والے وہ نوجوان تھے، جن کو ان کے والدین ہجرت اختیار کرتے وقت ساتھ فرانس لے آئے تھے۔
پیرس میں بم نصب کرنے والا چوبیس سالہ خالد کلکال لیوں شہر کا رہائشی تھا۔ کلکال لیوں کے قریبی جنگلاتی علاقے میں گرفتاری کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے مارا گیا اور اس کے بقیہ ساتھیوں کو عدالت نے عمر قید کی سزائیں سنا دیں تھیں۔
ان دہشت گردانہ حملوں نے فرانسیسی حکومتی حلقوں کو مختلف شہروں کے مضافاتی علاقوں پر توجہ مرکوز کرنے کا احساس بھی دلایا۔ اندازہ لگایا گیا کہ یہی علاقے دہشت گردی کی افزائش کے مقامات ہیں۔ بیس برس بعد سات جنوری سن 2015 میں ہونے والے ایک درجن دہشت گردانہ حملوں نے ایک پھر واضح کر دیا کہ فرانس کو ‘داخلی دہشت گردی کا سامنا ہے۔ سات جنوری کے حملوں میں بھی دو الجزائری نژاد حملہ آور شامل تھے۔
جرمن فرنچ انسٹیٹیوٹ (DFI) کے محقق اشٹیفان زائیڈنڈورف کا خیال ہے کہ یہ صورتحال فرانس کے نوآبادیاتی ماضی سے جڑی ہے کیونکہ الجزائر وہ واحد ملک تھا جس کو ‘مین لینڈ میں ضم کر دیا گیا تھا۔ سن 1962 میں الجزائر کی آزادی پر بحیرہ روم کے آر پار فرانس کی سرزمین کا خاتمہ ہو گیا۔ زائیڈنڈورف کا کہنا ہے کہ فرانس میں آباد الجزائری خاندانوں کی تیسری اور چوتھی نسل بہتر زندگی بسر کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہے اور فرانس کا بہتر سماجی سہولیات کا وعدہ بھی ابھی تک ادھورا ہی ہے۔ زائیڈنڈورف کے مطابق وعدے اور حقیقت میں تفریق ہی اصل مسئلہ ہے۔