اسلامی سال میں اللہ رب العزت نے چار مہینے حرمت والے بنائے ہیں، جن میں بالخصوص لڑائی جھگڑا کرنا، ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا یا کسی کو بلاوجہ تنگ کرناوغیرہ سب ممنوع قرار دیا ہے۔ ان حرمت والے مہینوں میںدور جاہلیت میں عرب والے جنگ کرنے سے باز رہتے ، اپنی تلواروں کو نیام میں ڈال لیتے، لوٹ مار سے رک جاتے ، دشمنوں کے خوف سے آزاد ہو جاتے اور اپنے گھروں میں آرام کی نیندسوتے۔وہ حرمت والے مہینے یہ ہیںرجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم الحرام ہیں ۔ماہ ذوالحجہ حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے اور یہ اسلامی سال کاآخری مہینہ ہے۔ ذوالحجہ کامعنی ہے حج والامہینہ،اس مہینے میں حاجی لوگ دنیا بھر سے رخت سفرباندھ کرخانہ کعبہ سعودی عرب کا رخ کرتے ہیں اور اس مہینے کی 8ذوالحجہ سے 13ذوالحجہ تک حاجی لوگ حج کے ارکان ومناسک اداکرتے ہیں،اسی لیے اسے ذوالحجہ کہاجاتاہے۔
ماہ ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں کی قرآن اور احادیث مبارکہ میں بہت زیادہ فضیلت وارد ہوئی ہے اس کا اندازہ رب العزت کے پاک کلام قرآن مجیدکی اس آیت مبارکہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ذوالحجہ کے پہلے عشرہ کی راتوں کی قسم سورہ الفجر میںاٹھائی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ”قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی۔” مفسرین نے اس سے ذوالحجہ کی دس راتوں کومراد لیاہے ۔سیدنا حضرت عبداللہ بن عباس [ فرماتے ہیں:رسول اللہ ۖ نے ارشادفرمایا: ” جتنا کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کوان دس دنوں (ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں) میں پسند ہے،اتنا کسی دن میں پسند نہیں۔” آپ سے پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول!جہادفی سبیل اللہ بھی نہیں؟آپ نے جواب دیا: ”ہاں ،جہادفی سبیل اللہ سے بھی نہیں،مگرجو کوئی شخص اللہ کی راہ میں اس طرح نکلا کہ اپنے جان ومال کے ساتھ شہید ہی ہوجائے ۔” حضرت عبداللہ بن عمر [ سے روایت ہے،نبیۖ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی عمل اتنا عظمت اور محبوب نہیں،جتنا ان دس دنوں میں کیاجائے۔لہذا ان ایام میں کثرت سے تہلیل،تکبیراورتمحیدکرنی چاہیے۔
مگر افسوس! کہ عوام الناس ان فضیلت والے دن اور برکتوں والی راتوں سے بے خبر اور غفلت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمدرسول اللہ ۖ اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہعنھم ان ایام کو بڑاہی غنیمت جانتے ،عبادات اور تکبیرات کا خصوصی طور پر اہتمام کرتے ۔ چناچہ حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت ابو ہریرہ [ کا یہ عمل تھا کہ وہ ان دس ایام میںبازاروں کی طرف چلے جاتے اور بلند آوازسے تکبیر ات پڑھتے اورانھیںتکبیرات پڑھتے دیکھ کر دوسرے لوگ بھی تکبیرات پڑھنا شروع کر دیتے ۔ہمیں بھی اس ماہ جہاں نیکی کے دوسرے اعمال زیادہ ذوق وشوق اور زیادہ اہتمام سے کرنے چاہیے وہاں تکبیرات کا بھی خوب اہتمام کرنا چاہیے۔
اس مہینے کی 9 ذوالحجہ کو یوم عرفہ کہاجاتاہے۔اس دن حاجی لوگ میدان عرفات میں وقوف کر تے ہیں،یعنی صبح سے لے کر سورج غروب ہونے تک وہاں ٹھہرے رہتے ہیںاوراپنے خالق حقیقی اللہ تعالیٰ سے خوب گڑگڑا کر دعائیں کرتے ہیں۔یہ دن اور لمحات ایسے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ میدان عرفات میںموجود حاجیوں کو دیکھ کر فرشتوں کو مخاطب کر کے ان کے سامنے فخر کرتے ہیں ۔ اسی بنا پر اس دن اللہ تعالیٰ جتنے زیادہ لوگوںکو معاف کر کے جہنم کی آگ سے آزاد فرماتے ہیں اتنا کسی اور دن نہیںمعاف کرتے ۔ اسی طرح اس مہینے کی 10تاریخ کومسلمانوں کا عظیم تہوار اور جدالانبیاسیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یاد تازہ کرتے ہوئے عید الاضحی ہوتی ہے ،جوکہ مسلمانوں کامذہبی تہوارہے ۔ اس دن دنیا بھر کے مسلمان کھلے میدانوںمیں مل جل کر باجماعت نماز عید الاضحی ادا کرتے ہیںاوراللہ کو راضی کرنے کی خاطر اور تقوی کے حصول کے لیے جانوروں کو اللہ کی راہ میں قربان کرتے ہیں۔
یاد رہے ماہ ذوالحجہ جو کہ رواں دواں ہے ان بابرکت دنوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے نیک اعمال صدقہ وخیرات،ذکر و اذکار،روزوںاور تلاوتِ قرآن کا خصوصی اہتمام کرناچاہیے اگر کوئی صاحب استطاعت ہوتو وہ بیت اللہ شریف کا حج کرے۔ ذوالحجہ کی پہلی تاریخ سے 13ذوالحجہ کی شام تک تکبیریں پڑھنا۔ یوم عرفہ ،یعنی9ذوالحجہ کا نفلی روزہ رکھنا۔10ذوالحجہ کو عیدالاضحی کی نماز باہر کھلے میدان میںاداکرنا اورپھرقربانی کرنا۔عیدکے دن غسل کرکے نئے یادھلے ہوئے کپڑے پہننا اور خوشبواستعمال کرنا،نمازعیدکے لیے گھر سے کچھ کھائے پیئے بغیر تکبیرات پڑھتے ہوئے عیدگاہ کی طرف جانا اور عورتوںکوبھی عیدگاہ میں لے کر جانا،نمازعیدالاضحی طلوع شمس کے بعد جلدی ادا کرنا،عیدگاہ سے واپسی پر راستہ تبدیل کرناوغیرہ یہ سب اعمال بجا لانااہل ایمان کے لیے ضروری ہے اور یہی ایک حقیقی مسلمان کا شیوہ ہونا چاہیے کہ نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے سے آگے بڑھیں۔