یوں تو عشقِ الہٰی میں مالی و جانی قربانی دینے کی سنت ابتدائے آفرینش سے ہی جاری و ساری ہے، اور یوں تو چرخِ کبُود تلے ابوالآباء کے دور سے ہی نامِ خدا پر تن ، من ، دھن وارے گئے۔ لیکن اس تماشگاہِ عالم میں چشمِ فلک نے ایک ایسا ہوش رُبا منظر بھی دیکھا ہے کہ اس جیسا عجیب وغریب منظر اس سے قبل کبھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ واقعی یہ منظر ہی کچھ ایسا دلخراش اور رُوح فرسا تھاکہ اس منظر کو دیکھ کر آکاش پر لرزہ طاری ہوگیا، دھرتی تھر تھر کانپ اٹھی، تارے آٹھ آٹھ آنسو رونے لگے ، آفتاب و ماہتاب کے جگر شدّتِ غم سے شق ہوگئے ، افلاک کے باسی لرزہ براندام ہوگئے ، عرشِ عظیم کے کنگرے ہلنے لگ گئے۔
کائنات کا ذرہ ذرہ اس بات پر نوحہ کناں تھا کہ ایک کہن سالہ باپ جنہیں خالقِ دوجہاں نے بڑی آرزؤوں اور حسرتوں کے بعد پیرانہ سالی میں ایک سپوت عطا فرمایاتھا، وہ اپنے اسی چشم وچراغ ، اپنے اسی جگر پارے اور اپنی آنکھوں کے تارے کو خود اپنے ہاتھوں عشقِ الٰہی میں نامِ خداپرنچھاور کررہے ہیں ؟ اور میں قربان جاؤں اس معصوم وننھی منھی کلی پر جو اس کم سنی و بالی عمریا میں بھی عشقِ الٰہی کے جذبے سے ایسے سرشار کہ تسلیم و رضا کا پیکر بنے ہوئے ،شاداں و فرحاں نامِ خدا پر جاں سپار ہونے کے لئے بلا چُون و چرا خنجر تلے بے تابانہ لیٹنے کو تیار ہیں ، اور آتشِ زیرپا ہوکر باپ سے عرض پرداز ہورہے ہیں کہ ابا جان جلدی کریں۔
تعمیلِ حکم ِ خداوندی میں چشمِ زدن کے بقدر بھی تاخیر نہ فرمائیں ، کہیں اس تاخیرکی وجہ سے آپ کے دل میں محبتِ پدری جوش میں نہ آئے ۔ اور عجب درعجب صرف یہی نہیں کہ عشقِ الٰہی میں یہ عاشقِ صادق اپنے معصوم گوشۂ جگر کو نامِ خدا پر فدا کررہے ہیں ، بلکہ اگر آپ تاریخ کی ورق گردانی کریں گے تو کبھی یہ عاشقِ صادق آپ کو عشقِ الٰہی میں اپنی محبوب اہلیہ اور فرزندِ ارجمند کو لق ودق صحرا میں دست و پاشکستہ چھوڑتے ہوئے نظر آئیں گے ، تو کبھی خود اپنے تئیں عشقِ الٰہی میں وارفتہ وسرگرداں ہوکر آتشِ نمرود میں بے خوف و خطر کودتے ہوئے نظر آئیں گے۔
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
عشقِ الٰہی میں سب کچھ قربان کرنے کے بعد پروردگارِ عالم کی قدردانی بھی قابلِ دید ہے ،کہ شکور وقدردان ذات نے ان کے بے لوث جذبوں کو رائیگاں نہیں کیا۔اگر ایک طرف خلیل اللہ نے اپنے معشوقِ حقیقی کو یہ ثابت کرکے دکھایاکہ وہ اپنے لختِ جگر پر تو چھری چلاسکتے ہیںلیکن احکامِ الٰہی پر چھری نہیں چلاسکتے تو دوسری طرف قادرِ مطلق ذات نے بھی یہ ثابت کرکے دکھایاکہ وہ ان کے جگر گوشے کو کوئی گزند نہیں پہنچانے دیں گے ۔ اگر ایک طرف خلیل اللہ نے یہ ثابت کرکے دکھایاکہ وہ اپنی اہلیہ اور معصوم بچے کو بے آب وگیاہ میدان میں بے یارومددگار چھوڑ سکتے ہیں لیکن اپنے رب کو نہیں چھوڑسکتے تو دوسری طرف مالکِ لم یزل نے بھی یہ کرکے دکھایا کہ وہ انہیں تنِ تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ اگر ایک طرف خلیل اللہ نے یہ ثابت کرکے دکھایاکہ وہ آتشِ شعلہ زن میں اپنا آپ تو جلاسکتے ہیں لیکن احکامِ الٰہی پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے تو دوسری طرف ربِ کریم نے بھی یہ ثابت کرکے دکھایا کہ وہ اس شعلہ زن آگ کو گل و گلزار بناکر آپ کو جلنے نہیں دیں گے۔
محترم قارئین ! یہی عید الاضحی کا فلسفہ ہے۔ عید الاضحی جہاں حکم ِ الٰہی سے جانور قربان کرنے کا نام ہے وہاں عید الاضحی خلیل اللہ کی طرح عشقِ الٰہی میں سب کچھ قربان کرنے ، ذبیح اللہ کی طرح عشقِ الٰہی میں سرِ تسلیمِ خم ہونے ، اور بی بی ہاجرہ کی طرح عشقِ الٰہی میں بطیبِ خاطراپنا سب کچھ چھوڑ کرگھر سے ہجرت کرنے کا بھی نام ہے۔
آئیے ! آج ہم سب مل یہ تہیہ کرلیں کہ اس مرتبہ ان عظیم ہستیوں کی عظیم اور بیش بہا قربانیوں کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے عیدِ الاضحی منائیں گے ، اور آئندہ کے لئے یہ ٹھان لیں کہ ان عظیم ہستیوں کی طرح اگر ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کے لئے اپنا تن، من، دھن قربان کرنا پڑے تو اس سے دریغ نہیں کریں گے، ان شاء اللہ۔