یادر کھیں عید کا تعلق شرعی حکام سے ہے اسکا کسی سائنس و منطق سے دور دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں عقل و خرد کے پیمانے پر پرکھیں تو ہزاروں سال پہلے ایک واقعہ ہوا جو صرف اس دور اور اس امت کیلئے خاص تھاا ب اس خواب او خون بہا کی یاد میں قیامت تک ہم لوگ ہزاروں لاکھوں جانور ذبح کیوں کریں عید کس بات کی منائیں؟کوئی افلاطون مجھے سائنس کے کسی مروجہ اصول کے مطابق اس عمل کی سائنسی تعبیر بتا دے؟۔۔۔
لہذا آج یہ سوال کہ کس کا موقف درست ہے تو اسکا برجستہ جواب ایک ہی ہے کہ بلاشبہ جناب مفتی منیب الرحمٰن صاحب کا موقف عین و قرآن و احادیث کے مطابق اور فواد چودھری و ہمنوا ٹولے کا موقف سراسر جاہلانہ ہے سائنسدانوں کو عقل کل ماننے والے سوچیں اگر وہ قرآن و سنت کو چھوڑ کر سائنسی تھیوری کو مانیں گے تو حضرت آدم علیہ السلام کے اول الخلق ہونے کا بھی انکار کریں گے اور پھر یہ عقیدہ مان کر وہ کافر ہونگے جیسے یہاں ہم ڈارون کی سائنسی تھیوری کو اٹھاکر ردی کی ٹوکری میں پھینکتے ہیں اور بلا شک و شبہ مانتے ہیں کہ اول الخلق حضرت آدم علیہ السلام ہیں ویسے ہی عید کے معاملے میں ہم شرعی احکامات کے مقابلے میں سائنسی تخیلات کو ہرگز اہمیت نہیں دے سکتے۔
یادرکھیں عید کا تعلق جانوروں کے خون بہاء سے مشروط ہے اور یہ سراسر الوحی و پیغمبرانہ ھدایات و رسومات کا تسلسل ہے سائنس ابھی اپنے ارتقائی مراحل میں ہے اسکے اصول و ضوابط ہٹ اینڈ ٹرائل کا نتیجہ ہوتے جبکہ قرآن و سنت کی تعلیمات ابدی ہیںاہل پاکستان جہاں کہیں سائنس قرآن و احادیث سے ٹکرانے کی کوشش کرے تو قرآن و احادیث کا دامن تھام لینا تمھارا ایمان سلامت رہے گا اور اگر تم نے روشن خیال بننے کیلئے اسکے متضاد موقف اپنایا تو تباہی و بربادی تمھارا مقدر ٹھہرے گی۔
اہل مغرب اور سیکولر طبقات ایک ایک کرکے تمھاری شرعی حدود و قیود کو تہس نہس کرنا چاہتے ہیں انہیں خوش کرنے کیلئے اپنے عقیدے کو مولڈ کرنا شروع کروگے تو پیغمبرانہ تعلیمات سے دور ہوتے جاؤ گے اور یہی یہود و ہنود کی کوشش ہے وہ اپنے معاشرے کو غیر فطری طریقوں سے چلاکر تباہی و بربادی کی طرف دھکیل رہے ہیںوما علینا البلاغ۔