یہ تو آپ نے کہاوت سنی ہو گی کہ یہ دنیا پانی کا بلبلہ ہے اس لحاظ سے بلبلے پانی میں بود اور نابود ہوجاتے ہیں یہ بھی سناہوگا کہ دنیا میں تین حصے پانی ہے باقی حصہ بظاہر خشکی پر مشتمل ہے لیکن اس 25% میں صحرا، پہاڑ،ندی نالے اور نہ جانے کیا کیا موجود ہے پانی زندگی کی علامت ہے انسان کی زندگی میں پانی کی سب سے زیادہ اہمیت ہے اس کے بغیر زندہ رہنا ناممکن ہے قرآن مجید میں ہے جب دنیا میں کچھ نہ تھا تب بھی پانی کرہ ارض میں پایا جاتاتھا جس پر اللہ تباک تعالیٰ کا تخت تیررہا تھا پانی قدرت کی بیش بہا نعمت ہے ایک خلیفہ ہارون الرشید سے حضرت بہلول نے پوچھا اگر آپ پیاس سے بے حال ہوں تو پھرایک گلاس پانی کتنے میں خریدو گے اس نے فوراً جواب دیا اس کے لئے میں آدھی سلطنت دے سکتاہوں ۔ ماہرین کے مطابق پاکستان قلت ِآ ب کا شکار ہے۔
اس وقت بھی ملک کی 85 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے یوں تو ملک کے دور دراز علاقوں میں پانی کا حصول لوگوںکا سب سے بڑا مسئلہ ہے درجنوں علاقے ایسے ہیں جہاں انسان اور جانور ایک ہی جوہڑ سے پانی پینے پر مجبورہیں لیکن تھرپارکر (سندھ)، چولستان (پنجاب) میں تو صورت ِ حال انتہائی سنگین ہوجاتی ہے یہاں پانی آٹھ سو ہزار فٹ نیچے ہیں جس سے ہرسال سینکڑوں ہلاکتوںکی خبریں آنی رہتی ہیں یہاں کچھ سماجی و مذہبی تنظیموں مولانا الیاس قادری کی دعوت ِ اسلامی اورجماعت اسلامی اور حافظ سعید کی خدمت ِ خلق فائونڈیشن نے باقاعدہ بورنگ کرواکر درجنوںپانی کے نلکے لگوائے ہیں جو ان کی ضروریات کے لئے ناکافی ہیں۔بیشتر پہاڑی علاقوں میں لوگ بارش کا پانی زمین دوز بنکروںمیں دخیرہ کرلیتے ہیں عام استعمال کیلئے اسی پانی سے کام چلایا جاتاہے۔
خواتین اور مردوںک و پینے کے لئے دوردرازسے پانی لاناپڑتاہے جو ایک الگ داستان ہے ۔پانی کا عالمی دن منانے کا آغاز 1992 ء میں برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں اقوام متحدہ کی ماحول اور ترقی کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس کی سفارش پر ہوا تھا جس کے بعد 1993 ء سے ہر سال پاکستان سمیت دنیابھرمیں 22 مارچ کو واٹرڈے منایا جاتا ہے۔پاکستان دنیا کے ان 17 ممالک میں شامل ہے جو پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جب پاکستان وجود میں آیا تو اس وقت ہر شہری کے لیے 5 ہزار 6 سو کیوبک میٹر پانی تھا جو اب کم ہو کر 1 ہزار کیوبک میٹر رہ گیا ہے اور 2025 تک 800 کیوبک میٹر رہ جائے گا جس سے حالات کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔پاکستان میں زراعت اور پینے کے لئے زیر زمین پانی (گراؤنڈ واٹر) استعمال کیا جاتا ہے جس کی سطح تیزی سے کم ہورہی ہے۔
پاکستان زیر زمین پانی استعمال کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔ملک میں استعمال ہونے والا 80 فیصد پینے کا پانی یہی زیر زمین پانی ہے جو زمین سے پمپ کیا جاتا ہے ، اسی طرح زراعت کے لئے بھی ملک بھر میں 12 لاکھ ٹیوب ویل زمین سے پانی نکال رہے ہیں اس بے تحاشا استعمال کی وجہ سے ہر سال زیر زمین پانی کی سطح ایک میٹر نیچے چلی جاتی ہے۔دوسری جانب ملک کی 85 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے بھی محروم ہے ، ملک کا 92 فیصد سیوریج کا پانی براہ راست دریاؤں اور نہروں میں شامل ہوجاتا ہے۔ اس آمیزش کی وجہ سے 5 کروڑ افراد سنکھیا کے زہریلے اثرات کی زد میں ہیں۔اس گندے پانی کی وجہ سے ہر سال 52 ہزار بچے ہیضہ، اسہال اور دیگر بیماریوں سے جاں بحق ہوتے ہیں۔
اس وقت معیشت کا ڈیڑھ فیصد حصہ ہسپتالوں میں پانی سے متعلقہ بیماریوں کے علاج پر خرچ ہو رہا ہے۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے یہاں آبادی سب سے کم ہے لیکن ان کو بھی پینے کاپانی میسرنہیں حکومت کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے پنجاب،خیبرپی کے اورسندھ کا جتنا پانی دریائوںمیں ضائع ہورہاہے اگر کسی منصوبہ بندی اور حکمت ِ عملی ترتیب دی جائے تو وہی پانی بنجرزمینوںکو سرسبزکرسکتاہے جس سے پاکستان نہ صرف غذائی ضروریات میں خودکفیل ہوسکتاہے بلکہ غریت کے خاتمہ میں بھی ممدومعاون ہوگا گوادر جہاں ایک نئی معاشرتی اور معیشتی افق نمودارہورہاہے وہاں کا بھی سب سے بڑا پرابلم پانی کی کمی ہے جس کیلئے سمندرکے پانی کو میٹھے پانی میں بدلنے کے لئے منصوبہ بندی کرنے کی فوری ضرورت ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قلت آب کا مسئلہ شدید تر ہو رہا ہے اور 2025 تک ملک خشک سالی کا شکار ہو سکتا ہے جس سے لہلہاتی کھیت بنجرہوسکتے ہیں اس لئے زیر زمین پانی کے استعمال کی پالیسی شروع کی جانی چاہیے۔ جبکہ میدانی اور صحرائی علاقوں میں زیر زمین پانی کے ذخائر محفوظ بنانے ، ڈیموں کی تعمیر اور پانی کے ضیاع کو روکے جانے کی سخت ضرورت ہے پانی کی کمی کے باعث پاکستان کا مستقبل خطرے میں ہے اس کا ادراک ہمارے حکمرانوںکو جتنی جلدی ہو جائے اتناہی ہمارے حق میں بہتر ہے۔