امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا نے حال ہی میں نافذ کردہ سیزر ایکٹ کے تحت شامی صدر بشارالاسد کے بیٹے سمیت چودہ شخصیات اور اداروں پر سخت پابندیاں عاید کردی ہیں۔
امریکا نے قبل ازیں شامی صدر بشارالاسد ،ان کے خاندان کے افراد اور اسد رجیم کے ساتھ کاروبار کرنے والے کسی بھی فرد یا ادارے کے خلاف سخت پابندیوں کے نفاذ کا اعلان کیا تھا۔
امریکی وزیر مائیک پومپیو کے اعلان کے مطابق محکمہ خارجہ نے بشارالاسد کے 18 سالہ بیٹے حافظ ، ان کے رشتے دار اور شامی فوج کے فرسٹ ڈویژن کے کمانڈر زہیر توفیق الاسد ،شام کی کاروباری شخصیت وسیم انوار القطان اور ان سے وابستہ نو کاروباری اداروں کا نام بلیک لسٹ کیا ہے اور ان پر پابندیاں عاید کی ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے بدھ کو جاری کردہ ایک بیان کے مطابق مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ’’اسد رجیم کی فوج سفاکیت ، جبروستبداد اور بدعنوانیوں کی علامت بن چکی ہے۔اس نے ہزاروں شہریوں کو ہلاک کیا ہے،گرفتارکرکے پابند سلاسل کیا ہے،پُرامن مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے اور انسانی زندگیوں کو کسی خاطر میں لائے بغیر اسکولوں ، اسپتالوں اور مارکیٹوں کو تباہ کیا ہے۔‘‘
انھوں نے مزید کہا:” اب وقت آ گیا ہے کہ بشارالاسد کی فضول اور سفاکانہ جنگ کا خاتمہ کیا جائے۔ہماری پابندیوں کا دراصل مقصد یہی ہے۔”
امریکا نے جن چودہ شامی شخصیات اور اداروں پر نئی پابندیوں کا اعلان کیا ہے، ان میں سے دس کا محکمہ خزانہ نے نفاذ کیا ہے۔ان میں کاروباری شخصیت وسیم انوارالقطان اور ان کے نو اداروں کو ہدف بنایا گیا ہے۔
وسیم القطان کو بشارالاسد کی حکومت نے دارالحکومت دمشق میں سرکارکے ملکیتی شاپنگ مالوں اور ہوٹلوں کی تعمیر کے ٹھیکے دیے تھے۔ان کے شامی نظام کے سینیر عہدے داروں سے قریبی تعلقات بتائے جاتے ہیں۔
مائیک پومپیو نے شامی شخصیات اور اداروں پر پابندیوں کی اس نئی قسط کو حماہ اور معرۃ النعمان سے منسوب کیا ہے۔ان دونوں شہروں کے مکینوں کے خلاف اسدی فوج نے 2011ء اور 2019ء میں جولائی کے اسی آخری ہفتے میں بدترین اور بدنام زمانہ جنگی جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ حماہ اور معرۃ النعمان میں بشارالاسد کی فوج کی انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بننے والے شہریوں کو انصاف ملنا چاہیے اور وہاں جنگی جرائم اور انسانیت مخالف جرائم کے مرتکبین کا احتساب کیا جانا چاہیے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سات ماہ قبل سیزر شامی شہری تحفظ ایکٹ پر دست خط کیے تھے۔یہ صرف سیزر ایکٹ بھی کہلاتا ہے اور یہ 17 جون کو نافذالعمل ہوا تھا۔
اس کے تحت امریکا نے پہلے مرحلے میں 39 شامی افراد اور اداروں کو بلیک لسٹ قرار دے کر ان پر پابندیاں عاید کی تھیں اور کہا تھا کہ یہ شام کے خلاف اقتصادی اور سیاسی دباؤ برقرار رکھنے کی پائیدار مہم کا نقطہ آغاز ہے۔اس کا مقصد اسد رجیم کو آمدن کے حصول سے روکنا ہے۔
قبل ازیں امریکا نے جن بدنام زمانہ شامی شخصیات پر پابندیاں عاید کی تھیں،ان میں خود بشارالاسد کے علاوہ ان کی اہلیہ اسماء ، ان کے چھوٹے بھائی ماہرالاسد اور ان کی بہن بشریٰ شامل تھیں۔
امریکی وزیرخارجہ نے تب شام کی خاتون اوّل اسماء کا بہ طور خاص ذکر کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ اپنے خاوند کی مدد گار رہی ہیں اور ان کا ’اخراس خاندان‘ شامی جنگ میں مالی منفعت حاصل کرنے والوں میں شامل ہے۔اب جو کوئی بھی اس خاندان اور اداروں سے کاروبار کرے گا تو وہ پابندیوں کے خطرے سے دوچار رہےگا۔
امریکا نے ماہر الاسد کے زیر قیادت شامی عرب فوج کے فورتھ ڈویژن اور اس کی قیادت پر بھی پابندیاں عاید کردی تھیں۔شام میں لڑنے والی ایرانی ملیشیا فاطمیون بریگیڈز اور اس کے مالی معاون شامی کاروباری شخصیت محمد ہامشو، ان کے بیٹے اور خاندان کے دوسرے افراد پر بھی امریکا نے پابندیاں عاید کردی تھیں۔
مائیک پومپیو نے وضاحت کی ہے کہ نئے قانون کے تحت شامی عوام اور ان کے لیے انسانی امداد کو پابندیوں کا ہدف نہیں بنایا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک بشارالاسد اور ان کا نظام شامی عوام کے خلاف ’’بلاضرورت‘‘سفاکانہ جنگ روک نہیں دیتا اور شامی حکومت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2254 کے تحت بحران کے سیاسی حل پر متفق نہیں ہوجاتی ،اس کے خلاف اقتصادی اور سیاسی دباؤ برقرار رکھا جائے گا۔