کشمیر (اصل میڈیا ڈیسک) کورونا وائرس کی وبا کے سبب کشمیر میں بھی پچھلے کئی مہینوں سے اسکول بند ہیں اور مستقبل قریب میں ان کے کھلنے کے آثار بھی نہیں ہیں ایسے میں وادی میں ‘اوپن ایئر اسکول‘ بچوں کی زندگیو ں میں رنگ بکھیرنے میں مدد کررہا ہے۔
سبز سبز گھاس، اطراف میں پہاڑیوں کے سلسلے اور صنوبر کے درختوں کے درمیان تسلیم بشیر اپنی کتاب میں کھوئی ہوئی ہیں۔ لاک ڈاون کی وجہ سے اسکول بند ہوجانے کے سبب اپنی سہیلیوں سے ملنے سے محروم تسلیم کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ اس کی خوشی معصوم چہرے سے صاف جھلک رہی ہے۔
بڈگام ضلع کے دودھ پتھری کی وادیوں میں تسلیم کی طرح کئی اور بھی بچے ہیں جو اوپن ایئر اسکول میں پڑھنے کے لیے آرہے ہیں۔ تسلیم بڑ ی معصومیت سے کہتی ہے”اس طرح تازہ ہوا میں اسکول آنا کتنا اچھا لگتا ہے۔ میں گھر پر بہت زیادہ پڑھائی نہیں کرپاتی تھی۔ گھر پر مجھے او ر بھی کئی کام کرنے پڑتے تھے۔”
تسلیم کہتی ہے ”کلاس مکمل ہونے کے بعد میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ بیٹھتی ہوں اور گھر جانے سے پہلے ہم ساتھ میں کھیلتے بھی ہیں۔” تسلیم کی طرح ہی دیگر بچوں کو بھی اس اوپن ایئر اسکول میں پڑھنے میں مزہ آرہاہے۔ ان بچوں کے والدین یا دادا، دادی انہیں اپنے ساتھ لے کر ‘اسکول‘ میں چھوڑ جاتے ہیں۔ کلاس کے دوران بریک ہونے پر بچے قریب ہی بہتی ہوئی ندی میں اپنے پاوں ٹھنڈے پانی میں ڈال کر مستی کرتے ہیں جبکہ کچھ بچے اسکول ختم ہونے کے بعد ندی میں غوطہ بھی لگا لیتے ہیں۔
کلاس شروع ہونے سے پہلے بچوں کو ہینڈ سینیٹائزر دیا جاتا ہے۔
کشمیر میں اسکولوں میں تعلیم کورونا وائرس کی وبا پھیلنے سے بہت پہلے سے ہی متاثر ہے۔ نئی دہلی حکومت نے گزشتہ برس اگست میں دفعہ 370 کو ختم کرکے جموں وکشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت ختم کردی تھی۔اس کے بعد سے ہی وہا ں کرفیو نافذ کردیا گیا تھا۔جس کی وجہ سے بچوں کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوگیا تھا۔
بھارت میں چونکہ کورونا وائرس مسلسل پھیلتا جارہا ہے۔ اب تک تقریباً سولہ لاکھ لوگ اس سے متاثر ہوچکے ہیں اور یہ دنیا میں سب سے زیادہ متاثرہ تیسرا ملک بن چکا ہے۔ حکومت نے بدھ کے روز ‘اَن لاک تین‘ کا اعلان کرتے ہوئے اسکولوں کے بندش میں ایک بار پھر توسیع کرتے ہوئے 31 اگست تک کردی ہے۔ ایسے میں یہ بھی واضح نہیں ہے کہ اسکول دوبارہ کب کھلیں گے۔
بچوں کو چھوٹے چھوٹے گروپوں میں پڑھایا جاتاہے۔
حکومت نے اسکولوں کو آن لائن کلاسیز چلانے کی ہدایت دی ہے لیکن ہر شخص اسمارٹ فون خریدنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ دوسری طرف دورافتادہ گاوں اور بالخصوص کشمیر میں انٹرنیٹ کی اسپیڈ انتہائی محدود ہے۔ جس کی وجہ سے آن لائن کلاسیز کی بات کرنا محض مذاق لگتا ہے۔ ایسے میں بچوں کے تعلیمی نقصان سے پریشان والدین نے محکمہ تعلیم سے مدد کرنے کی درخواست کی۔
مقامی محکمہ تعلیم کے افسر محمد رمضان کے مطابق ”ہم نے ان بچوں کے لیے کھلی فضا میں کلاسیز شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہم یہاں بھی سوشل ڈسٹنسنگ کے ضابطوں پر عمل کرتے ہیں۔”
اوپن ایئر اسکول کے لیے پیدل جاتے ہوئے بچے۔
گھاس کے میدان میں چلنے والے اس اسکول میں پندرہ گاوں کے بچے پڑھنے کے لیے آتے ہیں۔ کلاس شروع ہونے سے پہلے انہیں فیس ماسک اور ہینڈ سینیٹائزر دیا جاتا ہے۔ تمام بچوں کو ان کی عمر کے مطابق آٹھ گروپوں میں بٹھایا جاتا ہے۔
اس اوپن ایئر اسکول کے ٹیچر منظور احمد کہتے ہیں ”گھر پر بیٹھ کر تنخواہ لینا اچھا نہیں لگتا ہے۔ اسکول کی عمارت میں تنگ کمروں کے مقابلے میں ان خوبصورت وادیوں میں پڑھانے کا اپنا ہی مزہ ہے۔‘‘
بارہ برس کی شبنم، اس اسکول میں پڑھنے کے لیے ڈیڑھ کلومیٹر کا سفر پیدل طے کر کے آتی ہیں۔ شبنم کہتی کہ کس طرح شروع میں اسے ماسک پہننے میں پریشانی ہوتی تھی لیکن”اب مجھے اچھا لگتا ہے اور یہاں پڑھنے کے لیے آنے میں بہت مزہ آتا ہے۔”