پی ٹی آئی کے اقتدار سنبھالتے ہی آصف علی زرداری نے آٹھویں ترمیم پر شدو مد سے بیانات داغنے شروع کئے تو بہت سے حلقوں میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی ۔اس زمانے میں جعلی اکائونٹس کا بڑا رولا تھا۔ریڑھی والے،فالودے والے اور رکشہ والے کے اکائونٹ سے اربوں روپے کی ٹرانزیکشن نے پورے ملک میں دھوم مچائی ہوئی تھی جس کا سارا نزلہ آصف علی زرداری پر گرا یا جا رہا تھا۔ٹیلیویژن پر ایسے انٹرویوبھی تواتر سے نشر ہو رہے تھے جن سے منی لانڈرنگ کے اندیشوںکو مزید ہوا ملتی تھی۔یہ سلسہ کئی ماہ چلتا رہا اور پھر جعلی اکا ئونٹس کے الزامات پر آصف علی زرداری کودھر لیا گیا۔اس کے بعد ان کی بہن فریال تالپور ،سپیکر سندھ اسمبلی اورکئی دوسرے افرادبھی جیلوں میں ٹھونس دئے گے ۔ جس مقدمہ سے پاکستان کے درو دیوار ہل رہے تھے اسی مقدمہ میں ملوث سارے افراد ضمانتوں پر رہا ہو چکے ہیں جبکہ آصف علی زرداری کو میڈیکل گرائونڈ پر ضمانت مل چکی ہے اور وہ سندھ کے آغا خان ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔پاکستان کا بڑا عجیب و غریب کلچر ہے لہذا یہاں پر جب بھی کسی بندے کو گرفتار کرنا مقصود ہوتا ے اس کے بارے میں افواہوں کا بازار یک دم گرم کر دیا جاتا ہے۔الیکٹرانک میڈیا پر اتنا پروپیگنڈہ کیاجا تا یے کہ انسان شسدر رہ جائے ۔وہ و پریشان ہو جاتا ہے کہ اس ملک میںکرپشن کی ایسی انتہا بھی ہو سکتی ہے۔
صبح و شام ٹیلیویژن میڈیا ٹرائل کرتے رہتے ہیں کیونکہ انھیں ایسا ہی کرنے کا حکم صادر ہوا ہوتا ہے۔خواجہ برادران کے خلاف جس طرح کرپشن کی دھول اڑائی گئی وہ اپنی مثال آپ ہے۔سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلہ میں نیب کی جانبداری کو جس طرح طشت از بام کیا ہے اس سے نیب کی آنکھیں کھل جانی چائیں اور بے سرو پا الزامات پر اپوزیشن کو جیلوں میں بند کرنے کی روش کا خاتمہ ہو جا نا چائیے لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعدبھی نیب پہلے کی طرح اپنی مہارت دکھانے میں مصروف ہے۔وزیرِ اعظم عمران اور نیب میں جو گٹھ جڑھ ہے وہ بالکل عیاں ہے لیکن اس کے باوجود بھی نیب اور حکومت کے اعلی حکام کو بالکل شرم نہیں آتی۔وہ اب بھی اپوزیشن پر نئے مقدمات بنانے میں جٹے وئے ہیں ۔نیب کو حکومت ک طرف سے ایک لسٹ مہیا کی جاتی ہے اور پھر نیب کو پر لگ جاتے ہیں۔اس کی جانب سے حکومتی جماعت کے کس فرد پر کوئی ریفرنس اور انکوائری نہیں ہوتی جبکہ اپویشن پر بڑھ چڑھ کر چڑھائی کی جاتی ہے ۔اسے دوسروں کی آنکھ کا تنکا تو نظر آتا ہے جبکہ اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔
احتساب سے کسی کو انکار نہیں لیکن یہ کیسا احتساب ہے جس میں اپوزیشن ہی کو ہتھکڑیاں پہنائی جاتی ہیں،ان کی کردار کشی کی جاتی ہے،ان کا میڈیا ٹرائل کیا جاتا ہے اور انھیں انتہائی کرپٹ افراد بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔احتساب کی تلوار تو سب پر یکساں چلنی چائیے اور اس میں کسی کو کوئی تحصیص نہیں ہو نی چائیے لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا۔نیب نے اپو زیشن کے خلاف شکنجہ کسا ہوا ہے تا کہ وہ خوف زدہ ہو کر حکومت پر تنقید سے ہاتھ روک لے۔مسلم لیگ (ن) کے احسن اقبال،شا ہد خاقان عباسی ،خواجہ برادران، میاں شہباز شریف،حمزہ شہباز شریف،رانا ثناء اللہ پر احتساب کی تلوار جس بے رحمانہ انداز سے چلا ئی گئی ہے اس سے نیب کا ڈر اور خوف دم توڑ گیا ہے ۔پی پی پی تو سدا سے جیلوں کی عادی ہے لہذا ن کے قائدین کے لئے گرفتاری ایک معمول کا عمل ہے۔وہ جیلوں میں مزید دلیر اور نڈر ہو جاتے ہیں۔خورشید شاہ پچھلے کئی مہینوں سے جیل میں نظر بند ہیں لیکن انھوں نے کبھی کسی قسم کی کوئی دہائی نہیں دی بلکہ وہ بڑی جرات اور جانبازی سے جیل کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔،۔
پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ،حکومت اور نیب ایک پیج پر ہوتے ہیں جبکہ اپوزیشن ہمیشہ ملزمانہ کیفیت میں ہوتی ہے۔اپوزیشن کا مقدر انتقام، جیلیں اور رسوا ئیاں ہو تی ہیں۔حکومت ایسے اوچھی اور نازیبا حرکات پر شرمندہ ہونے کی بجائے لوٹ مار اور کرپشن ک الزامات والا نغمہ اونچی سروں میں گانا شروع کر دیتی ہے۔یہ نغمہ اتنی بار دہرایا جاتا ہے کہ عوام کے کان پک جاتے ہیں اور وہ اسے بار بار سن کر اکتا جاتے ہیں لیکن حکومت پھر بھی باز نہیں آتی ۔ حکو مت اپنے تئیں یہ سمجھتی ہے کہ وہ اپوزیش ن کو عوام کی نظروں میں گرا رہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس سے الٹا اس کی اپنی ساکھ پر سوالیہ نشان لگ جاتے ہیں۔عوام الزامات سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے حکومت کی پرفارمنس کو ناپتے ہیں ۔
پپچھلے دو سالوں میں حکومت اپنے کسی ایک وعدہ کو بھی ایفا نہیں کر سکی۔ایک کروڑ نوکریاں ، بچاس لاکھ گھر تو شائد خواب میں بن جا ئیں۔ آئی ایم ایف سے ہماری جان چھوٹنے کے امکانات مزیدکم ہو گئے ہیں۔این ایف سی ایوارڈ پر صوبوں کے درمیان جو نئی بحث چھڑ گئی ہے وہ انتہائی مہلک ہے۔میڈیا کی آزادی کا جو نعرہ لگایا گیا تھا وہ ہوا میں تتر بتر ہو چکا ہے ۔ کشمیر پر حکومتی بزدلی پر عوام شرمسار ہیں ،صحافت پر جو قدغن لگائی گئی ہے وہ شرمناک ہے ۔جنوبی پنجاب صوبے کا قیام تو فی الحال ممکن نہیں لیکن سیکریٹریٹ کے قیام پر جھگڑا اور تنازعہ نے نفرت کی نئی د یواریں کھڑی کر دی ہیں۔پولیس صلاحات کہاں ہیں؟ سیاست میں عدم ِ مداخلت کا جو نعرہ لگایا گیا تھا وہ شائد یورپ میں ایکسپورٹ ہو گیا ہے یااسے امریکہ والے چرا کر لے گئے ہیں۔اس کا کہیں نام و نشاں نہیں ہے ۔ عوام پہلے کی طرح تھانوں اور کچہریوں میں ذ لیل و خوار ہو رہے ہیں اور کوئی ان کا پرسانِ حال نہیں ہے ۔پنجاب میں بلدیات کے ادارے کا جس طرح خون کیا گیا اس سے حکمرانوں کی نیت کا پتہ چلتا ہے ۔
بلدیاتی ادراوں میں مسلم لیگ (ن) کا ہولڈ تھا لیکن یہ بات پی ٹی آئی کو قابل قبول نہیں تھی اس لئے بلدیات کا قبل از وقت خون کر دیا گیا۔مسلم لیگ (ن) نے حکومت کے اس اقدام پر کوئی خاص واویلا نہیں کیا ،کوئی خصوصی احتجاج نہیں کیا اور حکومتی اقدام پر اسے عدالت کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا تو شائد اس وجہ سے کہ کل کلاں کو پی ٹی آئی بلدیا تی اداروں کو بنیاد بنا کر اپنی ناقص کارکردگی کو اپوزیشن کے سر نہ منڈھ دے۔ اس نے پی ٹی آئی کو فری ہینڈ دیا لیکن وہ پھر بھی کوئی بڑا معرکہ سر کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ۔تعلیم اور صحت کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔کوئی بتانے کی جسارت کرے گا کہ وہ کونسا میدان ہے جس میں پی ٹی آئی ظفر یاب ہے؟آصف علی زرداری نے آٹھویں ترمیم پر جن خدشات کا اظہار کیا تھا وہ ایک ایک کر کے سچ ثابت ہو رہے ہیں۔حکومت پورا زور لگا رہی ہے کہ کسی طرح آٹھویں ترمیم کا خاتمہ کر دیا جائے۔وہ اس کے خاتمہ سے ملک پر یک جماعتی نظام مسلط کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ آٹھویں ترمیم ملکی سلا متی کی ضامن ہے اور اس سے ملک کی بقا جڑی ہوئی ہے۔یہ چھوٹے صوبوں کو اختیارات کی منتقلی کی ایک درخشاں کوشش ہے۔عمران خان کی آٹھویں ترمیم کے خلاف ہرزہ سرائی سے چھوٹے صوبے خوف کا شکار ہیں۔وہ ایک دفعہ پھر مرکز کے ہاتھوں یرغمال ہونے کے خوف سے سہمے ہوئے ہیں۔آٹھویں ترمیم نے انھیں جو اختیارات دئے ہیں وہ ان سے دست کش ہونے کو تیار نہیں ہیں۔وہ اس کا دفاع کرنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔آصف علی زرداری نے پی پی پی کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کی یلغار کو آٹھویں ترمیم سے جوڑنے کا جو عندیہ دیا تھا وہ بالکل صحیح تھا ۔اس وقت عوام کو اس بات کی سمجھ نہیں آئی تھی لیکن وقت نے دھیرے دھیرے اسٹیبلشمنٹ کی سراسیمگی اور حکومتی بوکھلاہٹ کو فاش کرکے رکھ دیا۔مجھے تو اس بات پر حیرانگی ہے کہ آصف علی زرداری نے اس بات کا کیسا سراغ لگا لیا جو تھی تو سچ لیکن جسے دوسرے سمجھنے،دیکھنے اور محسوس کرنے سے قاصر تھے۔،۔
Tariq Hussain Butt
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال