اسلام امن محبت اور پیار کا دین ہے ۔ امن محبت اور پیار کے لئے جو سب سے اہم چیز ہے وہ ” ادب و احترام ” ہے۔ پاکستان وہ ملک ہے جس کی بنیاد ، احساس اور وجود کی نسبت ” مدینہ اور والیِ مدینہ ” کی طرف منسلک ہے! ہماری بدقسمتی کہ ہم مسلمان ہوکر بھی دنیا سے پیچھے ہے ۔ اس کی بنیادی وجوہات میں دیگر اقسام کے علاوہ ” ناقص تعلیمی پالیسی ” اور فرقہ واردیت ہے۔ یہ بات اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ ہر گروہ ہر بندہ اپنی اپنی جگہ خود کو حق پر اور صحیح سمجھتا ہے۔ جیساکہ پاکستان میں ہر شخص کو مذہبی آزادی ہے۔ لیکن پاکستان کسی کو کسی کے عقائد یااسلام کے بنیادی عقائد اوراسلام کی مقدس ہستیوں کے خلاف لکھنے بولنے کی اجازت نہیں دے سکتا جیسا کہ حال ہی میں پنجاب کی اسمبلی نے ایک قانون منظور کیا ہے جس کے تحت ہر قسم کی ایسی کتابوں یا دیگر اشاعت پر پابندی ہوگی جن میں ‘اللہ، پیغمبرِ اسلام، دیگر مذاہب کے انبیا، مقدس کتب، خلفائے راشدین، صحابہ کرام، فرشتوں، اہلِ بیت کے حوالے سے کوئی گستاخانہ، تنقید یا ان کی عزت کم کرنے مواد شامل ہوگا۔’
اس کو پنجاب تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ 2020 کا نام دیا گیا ہے اور قانون کے مطابق کتابوں میں ‘جہاں بھی اسلام کے آخری پیغمبر کا نام لکھا جائے گا، اس سے پہلے خاتم النبیین اور اس کے بعد عربی رسم الخط میں صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم لکھنا لازم ہو گا۔’اسی طرح دیگر انبیا، صحابہ، خلفا راشدین، امہات المومنین اور دیگر مقدس ہستیوں کے نام کے ساتھ بھی اسلامی تعریفی القابات لکھنا لازمی ہوگا۔ ان تمام شقوں کا اطلاق ہر قسم کی ان کتابوں پر ہوگا جو پنجاب میں شائع کی جائیں یا کسی دوسرے صوبے یا ملک سے پنجاب میں لائی جائیں۔صوبہ پنجاب کی حکومت اس قانون کی منظوری کو ‘ایک تاریخی اقدام’ قرار دے رہی ہے اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ایک پیغام میں کہا ہے کہ ‘اس قانون کے نفاذ سے مختلف کتب میں مذاہب (خصوصاً اسلام) کے بارے میں نفرت انگیز مواد کی اشاعت کی روک تھام ہوگی۔ صحافی عارف محمود قریشی کی رپورٹ کے مطابق تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ کا ہر پلیٹ فارم پر دفاع کریں گے اور اس کی بھرپورحمایت کا اعلان کرتے ہیں۔ صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین اسلام کے اولین پاسبان اور محافظ ہیں اور پیغمبر اسلام کے اولین تربیت یافتہ اور کسب فیض کرنے والے ہیں۔
ان خیالات کا اظہار جامعہ علوم اثریہ کے مہتمم رئیس حافظ عبدالحمید عامر قاری ابو بکر صدیق مہتمم جامعہ حنفیہ تعلیم الا سلام ، مولانا صوفی محمد اسلم نقشبندی سرپرست سنی علما ء کونسل ، حافظ نذیر حسین نقشبندی، خطیب جامع مسجد حافظ نور، حافظ اظہر اقبال مہتمم جامعہ عائشہ صدیقہ للبنات، قاری محمد ظفر نقشبندی، خطیب جامع مسجد رحمانیہ پیرا غیب، حافظ احمد حقیق مدیر جامعہ اثریہ للبنات، سیاسی قائدین میں چوہدری لال حسین سابقہ ایم پی اے، تاجر راہنمائوں میں صدر مرکزی انجمن تاجران ملک محمد اقبال، جنرل سیکریٹری عبدالرشید بٹ، سرپرست شیخ محمد جاوید، جہلم بار ایسوسی ایشن کے صدر رانا اورنگزیب سمیت دیگرعلماء اور دیگر قائدین نے جامعہ علوم اثریہ میں میڈیاکے نمائندوں سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے اپنے مشترکہ اعلامیہ میں کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ایک عرصہ ہوا ملک پاکستان میں مقدس ہستیوں اور آل رسولۖکی توہین کا سلسلہ سوشل میڈیا کے ذریعے سے جاری ہے۔جس کی وجہ سے نفرت اور دشمنی کی جنگ دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔جہلم بار ایسوسی ایشن کے صدر رانا اورنگزیب نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ اس ایکٹ کی بنیادوں پر حملہ کیا جارہا ہے اور ہم سے زیادہ خود اللہ کریم اس ایکٹ کی حفاظت کرنیوالا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم سعودی حکومت سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ جب بھی کوئی مسلمان حج یا عمرہ کے لیے جائے تواس میں ختم نبوت کی شک شامل کی جائے تاکہ کو ئی بھی منافق اس پاک سرزمین میں داخل ہی نہ ہو سکے۔چوہدری لال حسین سابقہ ایم پی اے نے کہا کہ موجودہ حکومت بذات خود یہودی لابی کے لیے کام کر رہی ہے تو جس وقت ملک کے سربراہان ہی قادیانیوں کو ہر شعبہ میں شامل کرنے پر تلی ہوئی ہے تو پھر ہم عام پاکستانی کچھ کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر سکتے۔اور یہ حکومت وقت دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹ رہی ہے اور اس کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے اور اگر اس ملک پاکستان کو بچانا ہے تو نواز شریف سابقہ پی ایم پاکستان کو لانا پڑے گا ورنہ ان یہودی ایجنٹوں نے ملک پاکستان کا بیڑا ہی غرق کر دینا ہے۔صحافیوں میں سے راجہ جہانزیب ترک نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم تمام قائدین کے ساتھ صرف باتوں کی حد تک نہیں ہیں بلکہ اگر وقت آیااور جب بھی آپ کو ہماری ضرورت پڑی تو اپنے خون کا ایک ایک قطرہ تحفظ ناموس رسالت مآبۖ اور آل رسول ۖ پر اور اسے تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ پر قربان کر دینگے۔ تمام قائدین نے اجتماعی طور پر کہا کہ ہم حکومت پاکستان سے پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ معاشرے میں فتنہ و فساد کا سبب بننے والی اس سرگرمی کو سختی سے روکا جائے او ر ملک میں امن و امان کے قیام کو عملی طور پر یقینی بنایا جائے اور اس مقصد کے لیے علمائے کرام سمیت تمام مکاتب فکر نے ہمیشہ مثبت کردار ادا کیا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی کرے گی۔
ان کی شخصیات کو متنازع بنانے کے پیچھے اسلامی تعلیمات پر قدغن لگانے کے ناپاک عزائم اور مقاصد مضمر ہیںجنہیں ہم کسی بھی صورت کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور جن کا ہر دور اور ہر انداز میں مسلمانوں نے بھرپور انداز میں دفاع کیا ہے۔ انہوںنے کہا کہ ”تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ” کو منظور کروانے پر ہم اسپیکر اسمبلی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی اور وزیر اعلیٰ سردار بزدار سمیت اس بل کو تیار کرنے والی ٹیم اور اسے منظور کرنے والے اراکین اسمبلی کو تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتے ہوئے خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ امہات المومنین، صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محبت میں یہی آواز پاکستان کے غیورتمام مسلمان عوام کی ہے کیونکہ اصحاب رسول اور اہل بیت اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعینکی محبت اور دفاع ہمارے ایمان کا نصب العین ہے۔ ان مقدس ہستیوں کا دفاع ہم تمام ذرائع ابلاغ پر کریں گے اور ان شاء اللہ اس کے لیے ہم ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ بی بی سی اردو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق۔پاکستان کے صوبے پنجاب میں شیعہ علما کونسل نے سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہی کو تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ پر اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے جس کے بعد کونسل کے سیکریٹری جنرل کے مطابق انھیں یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ اس بل کو اس وقت تک آگے نہیں بھیجا جائے گا جب تک کہ تمام مکاتب فکر اور علما کے ساتھ مشاورت نہیں کر لی جاتی۔
حکومت کے لئے یہ وقت سخت امتحان ہے۔ حکومت کا کام ہے تمام مکتبہ فکر کے علماء کے ساتھ مشاورت کر کے اس بات کو یقینی اور حتمی بنائے کہ ” دین ِ اسلام کی اصل شکل و روح جوہمیں خاتم النبیین حضرت محمد ۖ سے ملا ہے جس میں صرف پیار محبت ہے اس میں وقت مزید وقت کابرباد نہ کرے کیونکہ عاشقانِ رسول ۖ سمجھتے ہیں اور ایمان رکھتے ہیں کہ آپ ۖ کے اصحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اور اہل بیت علیہ السلام کے مقام کا تعین کرنا ہمارا کام نہیں بلکہ ان مقدس ہستیوں کا ادب و احترام ہر صورت یقینی ہے۔ میں سمجھتا ہوں آج کا دانشور اور عالم وفاضل بھی وہ مقام نہیں پا سکتا جو ” نبی کریم ۖ کے اہل بیت اہل صحاب کے زیرِ استعمال جنگی سازوسامان رہا ہے ! ضرورت اس امر کی ہے کہ مقدس ہستیوں کے تقدس کے لئے اتحاد و یکجہتی اورسازگار ماحول پیدا کیا جائے تاکہ افہام و تفہیم کے ساتھ ہر ایک کے خدشات دور ہو سکیں اور اس کام میں دیرِ قابل ِ قبول نہیں کیونکہ یہ ایمان کا معاملہ ہے۔