بیروت (اصل میڈیا ڈیسک) لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ہونے والے دو انتہائی طاقت ور دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اب تک 100 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوچکی ہے جبکہ تقریباً چار ہزار افراد زخمی ہوئے ہیں۔
ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ لبنان حکومت نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا دوسری طرف ملک میں ہنگامی حالات نافذ کر دیے گئے ہیں۔
بیروت کے بندرگاہی علاقے میں ہونے والے ان زوردار دھماکوں کی وجہ سے آگ کا ایک بہت بڑا گولا آسمان کی طرف اٹھا اوربعد میں زلزلے کی کیفیت پیدا ہوگئی جس سے بہت سارے مکانات زمیں بوس ہوگئے اور سینکڑوں مکانوں کی کھڑکیاں ٹوٹ گئیں۔ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ اس کی آواز 240 کلومیٹر دور نکوسیا میں سنی گئی جبکہ زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر 3.3 ریکارڈ کی گئی۔
لبنان کے وزیر صحت کے مطابق ان دو دھماکوں میں کم از کم 100 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ 4000 کے قریب افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ جنہیں علاج کے لیے مختلف ہسپتالوں میں داخل کردیا گیا ہے۔
لبنان کے وزیر اعظم حسن دیاب کا کہنا ہے کہ ایک گودام میں رکھے ہوئے 2750 ٹن امونیم نائٹریٹ کی وجہ سے یہ دھماکہ ہوا ہے۔ جس کا استعمال عام طور پر کھیتوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے تاہم کہا کہ ‘یہ بات ناقابل قبول ہے کہ احتیاطی اقدامات کے بغیر 2750 ٹن امونیم نائٹریٹ چھ برس سے ایک گودام میں پڑا ہوا تھا۔‘ حسن دیاب کا مزید کہنا تھا ’میں تب تک چین سے نہیں بیٹھوں گا جب تک مجھے اس واقعے کے ذمہ دار کا نہ پتہ چل جائے تاکہ اس کا محاسبہ کیا جائے اور اُسے بہت سخت سزا دی جائے۔‘
لبنان کی داخلہ سلامتی کے سربراہ عباس ابراہیم کا کہنا ہے کہ امونیم نائٹریٹ کوچند برس قبل ایک بحری جہاز سے قبضے میں لے کر مقامی گودام میں ذخیرہ کیا گیا تھا۔
وزیر اعظم حسن دیاب نے دھماکے میں ہونے والے جانی اور مالی نقصان پر تین دن کے سوگ کا اعلان کیا ہے۔ دوسری طرف لبنان کے صدر مشیل ایون نے دو ہفتے کے لیے ہنگامی حالت نافذ کردی ہے۔انہوں نے 66 ملین ڈالر کا ایک ایمرجنسی فنڈ بھی قائم کردیا ہے۔
بیروت دھماکے میں ہونے والے جانی اور مالی نقصان پر عالمی برادری نے لبنانی حکومت اور عوام کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ایک عہدے دار نے بتایا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دھماکوں کے متعلق بریف کیا گیا ہے اور امریکا لبنان کے عوام کے لیے دعاگو ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اپنے ایک بیان میں بیروت کی بندرگاہ پر ہونے والے دھماکوں سے متاثرہ افراد کے لیے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اس سانحے کے اثرات سے باہر نکلنے کے لیے مدد پر تیار ہیں۔
یورپی یونین برطانیہ، جرمنی، اسرائیل، سعودی عرب اور ایران وغیرہ نے اپنے پیغامات میں مدد کی پیشکش بھی کی ہے۔ جرمن سفارتخانے نے اس واقعے میں اپنے اسٹاف کے زخمی ہونے کی تصدیق ٹوئٹر پر کی ہے جبکہ اقوام متحدہ کے امن مشن کے اہلکار بھی اس واقعے میں زخمی ہوئے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق اسرائیل کے ایک سرکاری عہدیدار نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا ہے کہ اسرائیل کا اس دھماکے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
لبنان میں یہ دھماکے ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب ملک کے سابق صدر رفیق حریری کے قتل کیس کا فیصلہ سنایا جانا ہے۔اقوامِ متحدہ کے ایک خصوصی ٹریبیونل کی طرف سے جمعے کو فیصلہ سنایا جائے گا۔ سابق صدر حریری 2005 میں ایک کار بم دھماکے میں ہلاک ہوئے تھے۔ حالانکہ وہ اس وقت وزیر اعظم کے عہدے پر نہیں تھے بلکہ ایک رکنِ پارلیمان تھے۔ وہ شام کی طرف سے ملک میں 1976 ء سے تعینات کیے گئے فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ کررہے تھے۔
حریری کی ہلاکت کے بعد اس وقت کی شام نواز حکومت کے خلاف زبردست مظاہرے ہوئے اور الزام سرحد پار ہمسایوں پر لگایا گیا۔ دو ہفتے کے اندر اندر حکومت مستعفی ہوگئی اور شام نے اپنی فوج کو واپس بلا لیا۔
2007 ء میں اقوام ِمتحدہ نے ایک خصوصی ٹریبیونل تشکیل دیا اور حزب اللہ کے چار اراکین پر قتل، دہشت گردی اور شدت پسندی کی فرد جرم عائد کی گئی۔ حزب اللہ نے اس مقدمے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے اور کہا ہے کہ یہ سیاسی طور پر غیر جانبدار نہیں۔
لبنان پہلے سے ہی اقتصادی بحران سے دوچار ہے۔اس کی نصف سے زیادہ آبادی غربت کاشکا ر ہے۔ دوسری طرف کورونا وائرس کی وجہ سے حالات مزید ابتر ہوگئے ہیں۔
لبنان میں اس وقت سیاسی کشیدگی بھی عروج پر ہے۔ حکومت کے خلاف سڑکوں پر زبردست مظاہرے ہورہے ہیں۔ عوام موجودہ معاشی بحران سے نمٹنے کے حکومتی فیصلوں کے خلاف احتجاج کررہی ہے۔ 1975 ء سے 1990 ء تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے بعد لبنان میں آنے والا یہ بدترین معاشی بحران ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ حکومت سرحد پر اسرائیل کے ساتھ جاری کشیدگی سے بھی نمٹ رہی ہے۔ اسرائیل نے گزشتہ ہفتے ایک بیان میں کہا کہ اس نے حزب اللہ کی طرف سے اسرائیلی سرحدوں میں دراندازی کی کوشش ناکام بنا دی۔
عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ دھماکے کے بعد ہر طرف لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ ایک عینی شاہد کا کہنا تھا ”دھماکے کے بعد ہر کوئی زمین پر گر گیا۔ جب میں نے آنکھیں کھولیں تو مجھے دھول اور تباہ شدہ عمارتوں کا ملبہ دکھائی دے رہا تھا اور فرش پر خون بکھرا ہوا تھا۔ پھر اچانک شیشے ٹوٹ گئے اور ایسے الارم بجنے لگے جیسے جنگ کے وقت بجتے ہیں۔‘‘
مقامی ذرائع کے مطابق بیروت کے ہسپتال زخمیوں سے بھرے پڑے ہیں۔ لبنانی ہلال احمر سوسائٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ہم ایک عظیم تباہی کا مشاہدہ کررہے ہیں۔ ہر جگہ ہلاک اور زخمی ہونے والے موجود ہیں۔ بڑی تعداد میں لوگ ملبوں میں دبے ہوئے ہیں۔ سینکڑوں زخمیوں کو ہسپتالوں سے باہر کھلی جگہوں پر لٹا کر طبی امداد مہیا کی جارہی ہے۔