استنبول (اصل میڈیا ڈیسک) ایران میں افغان طالبان کے حامیوں نے تحریک طالبان کا پرچم لہرانے کے بعد ترکی کے شہر استنبول میںبھی طالبان کا پرچم لہرا دیا ہے۔
عید الاضحی کی تعطیلات کے دنوں میں افغان سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر ترکی میں متعدد طالبان حامیوں کی تصاویر شیئرکی گئیں۔ ۔ان میں طالبان کے حامیوں کو طالبان کا پرچم اٹھائے اور اسے لہراتے دکھایا گیا ہے۔ ترکی کے سابق سیکولر لیڈر مصطفیٰ کمال اتا ترک نے سنہ 1920ء میں اسے میوزیم قرار دیا تھا جب کہ صدر طیب ایردوآن نے اسے ایک مسجد میں تبدیل کر دیا۔
اسی طرز عمل میں طالبان کے حامیوں نے ایرانی دارالحکومت تہران کے باغات میں انتہا پسند مذہبی تنظیم کے جھنڈے اٹھائےاور ان کی تصاویر بنوائیں۔ حالانکہ طالبان افغانستان میں ایک آئینیی اور دستوری حکومت کے خلاف خونی جنگ لڑ رہے ہیں۔
افغان سوشل میڈیا کے علمبرداروں کی اکثریت نے طالبان کے حامیوں کو ترکی میں تحریک کا جھنڈا بلند کرنے کی اجازت دینے کی مذمت کی ہے۔ سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ ترکی اور ایران میں طالبان کے حامیوں کو پرچم لہرانے کی اجازت دینا ان ملکوں کی طرف سے انتہا پسندی کی حمایت کے مترادف ہے۔
ایک افغان شہری محمد فاضلی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ “فیس بک” پر لکھا کہ “یہ طالبان کے حامی نہیں ہیں بلکہ وہ طالبان کے ممبر ہیں جنہیں ترکی کی حمایت حاصل ہے۔”
ایک اور افغان شہری معلم عبدالغفور نے لکھا کہ ایردوآن کے دیس میں طالبان کا پرچم لہرانا معمولی بات نہیں۔ افغانستان میں جو بے گناہ لوگوں کا روزانہ خون بہہ رہا ہے اس میں ایردوآن بھی برابر کا شریک ہے کیونکہ ترکی کی حکومت ان مجرموں کو پناہ دے رہی ہے۔
دوسری طرف متعدد افغان سماجی کارکنوں نے لکھا ہے کہ ترک حکام نے ترکی میں طالبان کا پرچم لہرانے والوں کو گرفتار کیا لیکن ترک میڈیا نے اس کا تذکرہ نہیں کیا۔
یہ طالبان کے حمایتی تھے۔ انہوں نے عید الاضحی کے دن ایرانی دارالحکومت تہران میں طالبان کا پرچم بلند کیا اور افغان قومی سلامتی کونسل کے سیاسی مشیر نے اس پر ایک ٹویٹ میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: “اسلامی جمہوریہ (ایران) نے افغان مہاجرین کو دریا برد کیا جا رہا ہے لیکن وہ طالبان کو مسلح کر رہا ہے اور طالبان کو ایران کی سرزمین پر اپنا پرچم لہرانے کی اجازت دے رہا ہے۔