ہیروشیما (اصل میڈیا ڈیسک) جاپان کے شہر ہیروشیما پر امریکا کے ذریعہ ایٹمی حملے کی 75 ویں برسی، کورونا وائرس کی وجہ سے، محدود طور منائی گئی۔
ہیروشیما پر امریکا کی طرف سے کیے گئے ایٹمی حملے کی یاد میں جاپان ہر سال امن تقریبات کا وسیع پیمانے پر انعقاد کرتا ہے لیکن کورونا وائرس کی وبا کے مد نظر اس مرتبہ دعائیہ تقریب میں محدود تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ اس میں حملے میں زندہ بچ جانے والے متاثرین، ان کے رشتہ دار، غیر ملکی اہم شخصیات شامل تھیں۔ انہوں نے عالمی امن کے لیے دعائیں کیں۔
ہیروشیما کے میئر کازومی ماتوسی نے جاپان کے وزیر اعظم شنزو آبے کی موجودگی میں عالمی رہنماوں سے نیوکلیائی تخفیف اسلحہ کے تئیں اپنے وعدوں پر سنجیدگی سے عمل کرنے کی اپیل کی۔
اس موقع پر ہیروشیما پیس میموریل میں منعقدہ تقریب میں موجود لوگوں نے عین آٹھ بجکر 15منٹ پر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی۔ اسی وقت آج سے 75 برس قبل شہر پر پہلا نیوکلیائی بم گرایا گیا تھا۔ اس میں ایک لاکھ 40 ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
کازومی ماتوسی نے کہا ”ہمیں اس تکلیف دہ واقعہ کا اعادہ کرنے کی اجازت کبھی نہیں دینی چاہیے۔ سول سوسائٹی کو خود غرض قوم پرستی کو مسترد کردینا چاہیے اور تمام طرح کے خطرات کے خلاف متحد ہوجانا چاہیے۔”
خیال رہے کہ امریکا نے چھ اگست 1945کو پہلا ایٹم بم ہیروشیما پر گرایا تھا، جس سے شہر تباہ ہوگیا۔ 1945 کے اواخر تک شہر کی تقریباً 40فیصد آبادی یعنی لگ بھگ ایک لاکھ 40 ہزار افراد، جن میں بیشتر عام شہری تھے، ہلاک ہوگئے۔
امریکا نے اس کے تین دن بعد نو اگست کو جاپان کے جنوبی شہر ناگاساکی پر دوسرا ایٹم بم گرایا جس میں تقریباً 74 ہزار افرا دلقمہ اجل بن گئے۔ اس کے بعد جاپان نے 15 اگست 1945 کو اتحادی فوج کے سامنے خودسپردگی کردی اور دوسری عالمی جنگ کا خاتمہ ہوگیا۔
اس سال کی امن تقریبات میں کورونا وائرس کی وجہ سے ایک ہزار سے بھی کم لوگوں نے شرکت کی جب کہ عام طورپر اس سے دس گنا لوگ اس تقریب میں شرکت کرتے رہے ہیں۔ بیشتر شرکاء نے سیاہ کپڑے پہن رکھے تھے اور چہروں پر ماسک لگارکھا تھا۔ کرسیوں کو ایک دوسر ے سے فاصلے پر رکھا گیا تھا۔
چونکہ عام لوگ اس سال تقریب میں شرکت نہیں کرسکے اس لیے تقریب کو آن لائن براڈکاسٹ کیا گیا۔ اس موقع پر منعقد کیے جانے والے بہت سارے روایتی پروگراموں کو منسوخ کردیا گیا۔ وزیر اعظم شنزو آبے نے ایٹمی حملے میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں گلہائے عقیدت پیش کیے۔
امریکا نے چھ اگست 1945کو پہلا ایٹم بم ہیروشیما پر گرایا، جس سے شہر تباہ ہوگیا تھا۔
ہیروشیما کے میئر ماتوسی نے عالمی رہنماوں سے اپیل کی کہ وہ نیوکلیائی تخفیف اسلحہ کے اپنے وعدوں پر زیادہ سنجیدگی سے عمل کریں۔ اس حوالے سے انہوں نے اپنے ملک کی ناکامی کی جانب بھی اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا”میں حکومت جاپان سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ (ایٹم بم حملے میں بچ جانے والو ں) کی درخواستوں پر توجہ دے اور نیوکلیائی ہتھیاروں پر پابندی کے معاہدے پر دستخط کرے، اس کی توثیق کرے اور اس کا ایک فریق بنے۔” انہوں نے مزید کہا کہ”چونکہ جاپان ہی وہ واحد ملک ہے جسے نیوکلیائی حملے کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے اس لیے اسے اس کے خلاف پوری دنیا کے عوام کو متحد کرنے کے لیے پیش رفت کرنی چاہیے۔“
نیوکلیائی ہتھیاروں پر پابندی عائد کرنے کے لیے چھوٹے غیر نیوکلیائی ملکوں کی طرف سے پیش کیے گئے ‘نیوکلیائی ہتھیاوں پر پابندی کے 2017 کا معاہدہ‘ پردنیا کی بڑی طاقتوں کی طرح جرمنی اور جاپان نے بھی ابھی دستخط نہیں کیے ہیں۔ بعض ناقدین جاپانی حکومت کے رویے پر بھی سوال اٹھاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جاپان میں پچاس ہزار امریکی فوج موجود ہیں اور انہیں امریکی نیوکلیائی تحفظ حاصل ہے۔ جاپان دوسری عالمی جنگ کے بعد اپنی دفاع کے لیے امریکا پر انحصار کرتا ہے۔
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے عالمی جوہری طاقتوں پر اس بات کے لیے نکتہ چینی کی کہ ان کی کوتاہیوں کے سبب نیوکلیائی ہتھیاروں پر پابندی سے متعلق بین الاقوامی معاہدے بے اثر اور ختم ہوتے جارہے ہیں۔ انہوں نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے دوسروں کے لیے ایک ناقص مثال قائم ہوتی ہے اور اس سے شمالی کوریا جیسے ممالک کو بھی جوہری ہتھیاروں کو حاصل کرنے کا حوصلہ ملا۔” ہائیکو ماس کا کہنا ہے کہ یہ صورت حال اس لیے پیدا ہوئی کیونکہ جوہری طاقتیں ”وقتی مفاد کے لیے غیر ذمہ دارانہ طاقت کی سیاست کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں۔“