کشمیر کی بحث میں سعودی عرب زیر بحث، آخر کیوں؟

 Mohammed bin Salman

Mohammed bin Salman

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان میں مسئلہ کشمیر پر بحث اس وقت عروج پر ہے لیکن جہاں اس بحث میں بھارت کی مذمت کی جا رہی ہے، وہیں سعودی عرب کی خاموشی کو بھی ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔ کیا اسلام آباد کو اپنی سعودی پالیسی پر نظر ثانی کرنا چاہیے؟

اس تنقید میں شدت اس وقت آئی جب شاہ محمود قریشی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں دبے لفظوں میں سعودی عرب پر تنقید کی اور کہا ہے کہ وہ وزیر اعظم سے کہیں گے کہ او آئی سی کے وزراء خارجہ کے اجلاس کو بلالیا جائے، چاہے اس میں سعودی عرب شرکت کرے یا نہ کرے۔

پاکستان کی وزرات خارجہ کی ترجمان نے بھی شاہ محمود قریشی کے اس بیان کا دفاع کیا ہے۔ تاہم دفتر خارجہ کی ترجمان کا کہنا تھا کہ ریاض اور اسلام آباد میں تعلقات تاریخی اور برادرانہ ہیں۔ ناقدین کے خیال میں کشمیر کے مسئلے پر سعودی عرب کی خاموشی پر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ، عوام اور سیاست دان سب ہی نالاں ہیں۔

معروف بین الاقوامی امور کے ماہر اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق سفیر شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ شاہ محمود قریشی کا بیان کوئی پالیسی بیان نہیں لیکن یہ بیان عوامی جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔

شمشاد احمد خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”سعودی عرب کا دعوی ہے کہ وہ مسلم امہ کا رہنما ہے لیکن اس نے مسلم امہ کے لیے اب تک کیا کیا ہے؟ سوڈان اور انڈونیشیا کو توڑ دیا گیا۔ کشمیر میں لاکھوں افراد کو ایک بڑے زندان میں بند کیا ہوا ہے۔ پوری دنیا کو معلوم ہے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے لیکن کیا سعودی عرب کو یہ پتہ نہیں چلا کہ کشمیریوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ جو ملک کشمیری کے ساتھ نہیں وہ ہمارے ساتھ بھی نہیں۔‘‘

سابق سفارت کار کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو اپنی سعودی پالیسی کو تبدیل کرنا چاہیے، ”بہت باتیں ہو گئیں مسلم امہ کی۔ اب پاکستان کو ان اسلامی ممالک کی طرف دیکھنا چاہیے، جو مسلم امہ کا حقیقی معنوں میں درد رکھتے ہوں اور اپنے معاشی و مالی مسائل امہ کے مفاد میں قربان کرنے لیے تیار ہوں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عرب ممالک مالی معاملات کو دیکھتے ہیں۔ ایک طرف کشمیریوں پر ظلم ہو رہا ہے اور دوسری طرف وہ مودی کے ملک میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کر کے چین کے خلاف مودی کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں۔‘‘

پاکستان نے حالیہ برسوں میں ترکی اور ایران سے تعلقات بہت بہتر کیے ہیں۔ ترکی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مسلم دنیا کی لیڈرشپ حاصل کرنا چاہتا ہے جب کہ ایران اور سعودی عرب کی بھی یہی کوشش ہے۔ کچھ ناقدین کے خیال میں ریاض اس منظر نامے کو پسند نہیں کرتا۔ اسلام آباد کی پریسٹن یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر امان میمن کا کہنا ہے بھارت میں سعودی سرمایہ کاری نے پاکستانیوں کو بہت دکھی کیا۔

ڈاکٹر امان میمن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”کیونکہ سعودی عرب مسلم امہ کا چیمپئن ہونے کا دعویدار اس لیے پاکستانیوں نے ہمیشہ سے یہ توقع کی ہے کہ ریاض کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی حمایت کرے گا لیکن سعودی حکمرانوں نے ہمیشہ پاکستانیوں کو مایوس کیا ہے۔ اب محمد بن سلمان کے دور میں سعودی عرب کا بنیادی مفاد تجارتی اور معاشی امور میں ہے۔ ان کے لیے بھارت بڑی مارکیٹ ہے جب کہ پاکستان کو وہ کوئی زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔‘‘

ڈاکٹر میمن کا مزید کہنا تھا کہ سعودی عرب ایک امیر اور بااثر ملک ہے اور اگر وہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی حمایت کرتا تو اسلام آباد کی پوزیشن مضبوط ہوتی لیکن ایسا نہ کرنے پر پاکستان میں عوامی جذبات ریاض کے خلاف بڑھتے جارہے ہیں، ”پاکستان کے زیادہ تر سیاست دان بھی سعودی حکمرانوں کو پسند نہیں کرتے اور کشمیر کے مسئلے پر خاموشی کی وجہ سے طاقت ور حلقے بھی سعودی عرب سے ناراض لگتے ہیں۔ تو ممکن ہے کہ اسلام آباد کو اپنی سعودی پالیسی تبدیل کرنی پڑے۔‘‘

پاکستان میں کئی حلقے کشمیر اور فلسطین کے مسئلے میں بہت مماثلت دیکھتے ہیں اور ان کے خیال میں بھارت بالکل اسی طرح کشمیریوں کو اقلیت میں بدل رہا ہے، جس طرح اسرائیل نے فلسطینیوں کو ان ہی کی سرزمین پر اقلیت میں بدلا۔

سعودی عرب کے بھارت اور اسرائیل دنوں کے ساتھ مراسم خوشگوار ہیں، جس پر کئی پاکستانی چراغ پا ہیں۔ اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے عالمی ادارے برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر بکارے نجم الدین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی بھارت اور اسرائیل کے ساتھ قربت نے بھی پاکستان میں عوامی جذبات کو ریاض کے خلاف کیا ہے اورملک میں یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ پاکستان کو بھی اپنے مفادات کے تحت خارجہ پالیسی بنانی چاہیے۔

ڈاکٹر نجم الدین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”شاہ محمود قریشی کا بیان اس بات کا عکاس ہے کہ جس طرح سعودی عرب نے پاکستان کے کشمیر پر موقف کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے مفادات کے تحت بھارت سے تعلقات استوار کیے۔ بالکل اسی طرح اب پاکستان بھی اپنے مفادات کو دیکھتے ہوئے آزادانہ طور پر اپنے فیصلے کرے گا۔ اس بیان کی ایک تشریح یہ ہو سکتی ہے کہ پاک سعودی تعلقات کا اب جائزہ لیا جائے گا اور پاکستان اپنے مفادات کے تحت پالیسی بنائے گا۔‘‘

مقامی میڈیا نے باوثوق ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا ہے کہ پاکستان نے سعودی قرضہ اتارنے کی خاطر چین سے قرضہ حاصل کر لیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ چین نے پاکستان کو ایک بلین ڈالر کا قرضہ فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے تاکہ اسلام آباد حکومت اسے ریاض حکومت کو لوٹا سکے۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق سعودی عرب کی طرف سے پاکستان سے مالی تعاون میں کمی کی گئی ہے، جس کی وجہ سے سعودی عرب کو قرضہ واپس نہ کرنے کے باعث اسے بین الاقوامی قرض خواہوں کی شرائط پورا نہ کر سکنے پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے گرما گرم بحث جاری ہے لیکن حکومت پاکستان نے ابھی تک اس بارے میں کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا۔

پاکستانی صحافی شہباز رانا کہتے ہیں کہ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو دیے گئے قرضے میں سے ایک ارب ڈالر کی مبینہ واپسی خطے کی بدلتی صورتحال کی عکاس ہے۔ انہوں نے ڈی دبلیو کو بتایا،’’پاکستان ا ور سعودی عرب کے تعلقات ملائیشیا سمٹ میں شرکت نہ کرنے کے بعد سے تناؤ کا شکار ہیں۔ ملائیشیا سمٹ کے بعد پاکستان کے بیانات پر سعودی عرب پاکستان سے کافی ناراض تھا۔‘‘

شہباز رانا کے بقول، ’’ پاکستان کا خیال تھا کہ سعودی عرب پاکستان کی خارجہ پالیسی پر اثر اندز ہونے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ سعودی عرب کا یہ خیال تھا کہ پاکستان کو دیے جانے والے چھ ارب ڈالر کے قرضے کی شرائط پاکستان پوری نہیں کر رہا۔ ایسا لگتا ہے کہ اس تناؤ کے ردعمل میں سعودی عرب نے پاکستان سے ایک ارب ڈالر واپس طلب کیا اور پاکستان نے چین سے مدد لیتے ہوئے اتنی رقم چین سے لے لی۔‘‘