کابل (اصل میڈیا ڈیسک) تین روزہ افغان لویہ جرگے کے اختتام پر مندوبین نے اتفاق کیا ہے کہ قیام امن کی خاطر یہ کڑوی گولی نگل کر مذاکرات کے لیے راہ ہموار کی جائے۔
اتوار کو افغان لویہ جرگے کے اختتام پر پشتو اور فارسی میں متفقہ اعلامیہ پڑھ کر سنایا گیا جس میں فوری طور پر سیز فائر اور امن مذاکرات شروع کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
مندوبین نے زیر حراست سنگین جرائم میں ملوث طالبان کے 400 کے قریب قیدیوں کو رہا کرنے کی منظوری دی۔ ان میں کئی جنگجو افغان سکیورٹی اور غیر ملکی فورسز پر متعدد حملوں میں ملوث رہے ہیں۔ ڈیڑھ سو سے زائد قیدی ایسے ہیں جن کو سزائے موت سنائی جا چکی تھی۔
افغان قومی مصالحتی ہائی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ کے مطابق قیدیوں کی رہائی پر اتفاق سے امن مذاکرات کی راہ میں حائل آخری رکاوٹ بھی دور ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا، ”اب ہم امن مذاکرات کے بہت قریب پہنچ گئے ہیں۔‘‘
طالبان نے کہہ رکھا تھا کہ ان کے قیدیوں کی رہائی مکمل ہونے کے ساتھ ہی وہ فوری طور پر مذاکرات شروع کرنے کے لیے تیار ہیں، جس میں اولین نقطہ سیز فائر کی شرائط طے کرنا ہوگا۔
جرگے کے آغاز سے پہلے بعض افغان مندوبین کی جانب سے طالبان قیدیوں کی رہائی پر سخت اعتراضات ظاہر کیے گئے تھے۔ انسانی حقوق کی کارکن بلقیس روشن نے ایک بینر اٹھایا تھا جس پر درج تھا کہ، ”طالبان کو معافی دینا قوم کے ساتھ غداری ہوگی۔‘‘
تاہم امریکا کا افغان حکومت پر دباؤ تھا کہ وہ ملک کے وسیع تر مفاد اور بہتر مستقبل کے لیے یہ کڑوی گولی نگلنے کے لیے تیار رہیں۔
جرگے کے فیصلے سے امریکا کے لیے افغانستان سے اپنے مزید فوجی نکالنے میں آسانی پیدا ہوگی۔ افغانستان میں آج بھی امریکا کے 8600 فوجی موجود ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خواہش ہے کہ نومبر کے صدارتی الیکشن سے پہلے ان فوجیوں کی خاطر خواہ تعداد واپس لائی جائے۔ چار سال پہلے یہ ان کا انتخابی وعدہ تھا جس میں اِس وقت کسی پیش رفت سے انہیں نومبر کے صدارتی الیکشن میں کافی مدد مل سکتی ہے۔
افغان حکومت کے طالبان کے ساتھ ممکنہ مذاکرات کی فی الحال کوئی تاریخ طے نہیں لیکن امکان ہے کہ یہ بات چیت آئندہ ہفتے دوحہ قطر میں ہو سکتی ہے۔
طالبان اور امریکی حکومت کے درمیان امن معاہدہ رواں برس فروری میں طے پایا تھا۔ ڈیل کے تحت افغان حکومت کو طالبان کے 5000 قیدی اور طالبان کو اپنی تحویل سے حکومت کے 1000 قیدی رہا کرنے تھے۔
کابل میں صدر اشرف غنی کی حکومت نے پہلے اس سمجھوتے پر سخت اعتراض کیا لیکن بعد میں بیشتر طالبان قیدی رہا کر دیے ماسوائے 400 کے، جو حکومت کے مطابق سنگین جرائم میں ملوث تھے۔
اتوار کو جرگے کے اختتام پر سابق صدر حامد کرزئی نے کہا کہ مذاکرات میں صبر درکار ہوتا ہے اور اس میں وقت لگتا ہے۔ انہوں نے کہا، ”میں طالبان سے کہتا ہوں کہ اب آپ لڑائی بند کردیں۔‘‘