اسلامی مہینوں کی گنتی میں دین اسلام نے ہمیں دو تہواروں سے نوازا ہے،ان میں سے ایک ”عید الفطر” جو ماہ رمضان المبارک کے روزے رکھ کر یکم شوال کو منائی جاتی ہے۔ دوسری ”عید االاضحی” جو ماہ ذوالحجہ کی 10 تاریخ کو منائی جاتی ہے۔ یہ عید الاضحیٰ دین اسلام کا دوسرا تہوار ہے۔ ہر سال صاحب استطاعت لوگ عید الاضحیٰ کے پُرمسرت موقع پر دنیا بھر کے ہر کونے میں رہنے والے مسلمان لاکھوں جانور اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس کی رضا کے حصول کے لیے قربان کرتے ہیں۔ اللہ تعالی کی راہ میں مہنگے سے مہنگے اور خوبصورت جانور دیکھ کر، ہر قسم کے عیوب سے پاک خریدنا اور انہیں قربان کرنا مسلمانوں کا جد الانبیا سیدنا حضرت ابراہیم اور سیدنا حضرت اسماعیل علیہم السلام اور اپنے دین اسلام سے محبت اور جذبہ ایمان کا واضح ثبوت ہے۔ جانوروں کو قربان کر دینے کے بعد پھر ان کے گوشت کو مستحقین اور اپنے عزیز و رشتہ داروں میں تقسیم کر دینا،مزید جذبہ ہمدردی اور صلہ رحمی کا بھی عملی ثبوت نظر آتا ہے۔
عید الفطر اور عید الاضحیٰ دونوں عیدوں کا تقوٰی، رضائے الہی اور اچھی زندگی گزارنے کے حوالے سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ رمضان المبارک سے تقویٰ، صبر، ہمدردی اور ضبط نفس….. حاصل ہوتا ہے اور عید الاضحیٰ کو قربانی کرنا بھی تقوٰی اور اپنے آپ کو مٹا دینے،دین اسلام پر مکمل عمل کرنے اور ہر وقت اللہ کی راہ میں قربانیاں دینے کا جذبہ بیدار کرتا ہے۔ ہم مسلمانوں کو اپنے اندر عید الاضحیٰ کو وہی جذبہ پیدا کرنا چاہیے جس سے صرف اور صرف رضائے الٰہی مقصود ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو نہ تو قربانی کے جانوروں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ہی ان کا خون بلکہ اگر اللہ تعالیٰ کو چاہیے تو صرف مومن کا تقویٰ اور رضائے الٰہی مطلوب ہے۔
یہ عید الاضحیٰ ہر سال ہم لوگوں کو بہت سے سبق دے کر جاتی ہے کاش! کہ ان اسباق کو تمام مسلمان جانوروں کے قربان کرنے کے جذبہ کی طرح اچھی طرح ذہن نشین کر لیں۔ ان میں سے چند ایک کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ قربانی ہمیں دین اسلام کے مخالف ہر کام اور اپنی نفسانی خواہشات کو بھی قربان کر دینے کا سبق دیتی ہے، تاکہ ناجائز خواہشات سے ہم اختلاف، انتشار بغض و حسد، تکبر و غرور، عناد و دشمنی، مکر و فریب، دھوکہ دہی اور دوسروں کی حق تلفی وغیرہ کے ذریعہ مخلوق خدا کی تباہی کا ذریعہ نہ بنیں۔ بلکہ عظمت و رفعت کا جو معیار اور جو پیمانہ ہمیں قرآن مجید و صحیح احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے، اسے اپنی زندگی میں نافذ کرنے کی کوشش کریں۔ ہر مسلمان ذات برادری، رنگ و نسل اور امیری و غریبی کے سارے امتیازات کو ختم کر کے بھائی چارہ، اخوت، پیار و محبت اور ایک اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت و بندگی کی فضا قائم اور ہموار کرے۔
اسی طرح کسی کو اللہ تعالیٰ نے زبان کی مٹھاس اور اچھا بولنے کی طاقت دی ہوئی ہے تو وہ اپنی زبان کے ذریعے لوگوں کو فائدہ پہنچائے۔ اللہ تعالیٰ نے اگر کسی کو قلم کی طاقت سے نوازا ہے تو وہ اپنی قلم کے ذریعے کسی ضرورت مند کو نفع پہنچا سکتا ہے تو قلم کی قربانی دے۔ کسی کے مال میں اللہ تعالی نے فراوانی کی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے مال میں سے کچھ اللہ کی مخلوق میں فی سبیل اللہ تقسیم کر کے اپنے مال و دولت میں برکتیں اور اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنے کے لیے مال کی قربانی دے۔ ہم عید الاضحیٰ مناتے ہیں تو اس کے مقاصد میں سے یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے اور ہمارے اندر دین اسلام کی وہی روح اور وہی کیفیت زندہ ہو جائے جو سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنی پوری زندگی ایک اللہ رب العزت کو راضی کرنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر کے دیکھا دیا۔عید الاضحیٰ کے موقع پر صرف جانور کے گلے پر چھری چلا دینا ہی کافی اور قربانی نہیں، بلکہ ہمیں سارا سال ہر وقت اللہ تعالیٰ کی راہ میں پیش پیش رہنے اور قربان ہونے کے لیے تیار رہنا چاہیے تاکہ ہم اللہ تعالی کی مکمل رضا حاصل کر سکیں۔
اس عظیم سنت ابراہیمی کی تکمیل کرنے بعد ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں کسی قسم کی بھی قربانی دینا پڑے ہم انکار نہیں کریں گے۔ دین اسلام اور وطن عزیز ”اسلامی جمہوریہ پاکستان”کی سر بلندی کے لیے ہر وقت تیار ہیں اور جیسی بھی قربانی کی ضرورت پڑے ہم سب ہر حال میں تیار رہیں گے۔ سیدنا حضرت ابراہیم اور سیدنا حضرت اسماعیل علیہم السلام کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ اس لیے کہ انھوں اپنی ساری زندگی اللہ تعالیٰ کی رضا کو ملحوظ خاطر رکھا اور بعد میں آنے والے انسانوں کے لیے اپنی اطاعت بھری زندگی گزار کے عملی ثبوت پیش کر کے دیکھا دیا۔
آو ہم سب سیدنا حضرت ابراہیم اور سیدنا حضرت اسماعیل علیہم السلام کی سیرت پاک کا مطالعہ کر کے ان کی سیرت پاک سے کچھ سبق حاصل کریں تا کہ ہم اپنی دنیا اور آخرت کو سنوار کر اللہ رب العزت کے پسندیدہ بندے بن جائیں اور روز محشر اس کے حضور سرخرو ہو سکیں۔