ہانگ کانگ (اصل میڈیا ڈیسک) ہانگ کانگ میں پولیس نے جمہوریت حامی میڈیا اداروں کے مالک جمی لائی کو نئے متنازعہ سکیورٹی قانون کے تحت گرفتار کر لیا ہے۔
ہانگ کانگ میں جمہوریت نواز میڈیا کی اہم شخصیت جمی لائی کے ایک قریبی ساتھی کا کہنا ہے کہ انہیں غیر ملک طاقتوں کے ساتھ ملی بھگت کے شبہے میں متنازعہ سکیورٹی قانون کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ جمی لائی کی میڈیا کمپنی ‘نیکسٹ ڈیجیٹل’ سے وابستہ ایک سینیئر افسر مارک سائمن نے پیر 10 جولائی کی صبح اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ”اس وقت جمی لائی کو غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ ملی بھگت کے شبہے میں گرفتار کیا جا رہا ہے۔” نیکسٹ ڈیجیٹل نامی کمپنی ایک مقامی اخبار ‘ایپل ڈیلی’ بھی شائع کرتی ہے۔
پولیس کے بعض ذرائع نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ ہانگ کانگ کے نئے سکیورٹی قانون کے تحت جمی لائی کو غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ اشتراک کرنے اور جعل سازی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
ہانگ کانگ میں نئے متنازعہ سکیورٹی قانون کے نفاذ کے بعد سب سے پہلے بعض جمہوریت نواز طلبہ کو گرفتار کیا گیا تھا اور اس سلسلے میں کسی بڑی شخصیت کی یہ پہلی گرفتاری ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے قانون کی خلاف ورزی کرنے والے ایسے اب تک سات افراد کو حراست میں لیا ہے تاہم اس سے متعلق کوئی تفصیل نہیں بتائی کہ آخر وہ کون افراد ہیں جنہیں حراست میں لیا گیا ہے۔
ہانگ کانگ میں جمہوریت حامی گروپوں کے جانب سے حکومت کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ کافی دنوں سے جاری تھا اور اسی پس منظر میں حکومت نے اس برس جون کے اواخر میں سکیورٹی سے متعلق ایک نیا قانون نافذکیا جس پر عالمی برادری نے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے نیم خود مختار علاقے کی خود مختاری پامال ہوگی۔
سکیورٹی سے متعلق چین نے جو سخت متنازعہ قانون نافذکیا ہے اس کے تحت چینی حکومت کے خلاف آواز اٹھانے، بیرونی ممالک کی افواج کے ساتھ کسی بھی طرح کی ملی بھگت کرنے اور دہشتگردانہ کارروائیوں کو سنگین جرم کے دائرے میں رکھا گیا ہے۔ نئے سکیورٹی قانون کے تحت پولیس کو اب ایسے وسیع تر اختیارات حاصل ہیں کہ وہ بغیر پیشگی وارنٹ کے کہیں بھی تلاشی لے سکتی ہے اور ایسے تمام پیغامات و میسیجز کو بھی انٹرنیٹ فراہم کرنے والے اداروں اور کمپنیوں کو ہٹانے کا حکم دے سکتی ہے جو اس قانون کے منافی ہوں۔
سنہ 1989 میں چار جون کے روز بیجنگ کی تائنامین اسکوائر پر جمہوریت حامی مظاہرین کے خلاف سخت کارروائی کے واقعے کے بعد سے ہی جمی لائی ہانگ کانگ میں جمہوریت کے حق میں آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ لیکن چین کا سرکاری میڈیا چین کو تباہ کرنے کے لیے بیرونی طاقتوں کے ساتھ ملی بھگت کرنے میں انہیں ”سیاہ ہاتھ” سے تعبیر کرتا رہا ہے۔ جمی لائی اور ہانگ کانگ کے 14 دیگر جمہوریت حامی شخصیات کو پہلے ہی سے، گزشتہ برس غیر قانونی سمجھے جانے والے حکومت مخالف مظاہروں کو منظم کرنے اور ان میں حصہ لینے جیسے الزامات کا سامنا ہے۔
میڈیا گروپ نے پہلے ہی خبردار کیا تھا کہ ہانگ کانگ میں نافذ ہونے والے اس نئے سکیورٹی قانون کا سب سے منفی اثر میڈیا اداروں پر پڑے گا اور وہ اس سے مزید کمزور ہوجائیں گے۔نئے قانون کے تحت خاص قسم کے بیانات اور خطابات کو جرائم کے دائرے میں شامل کیا گیا ہے۔ اس کے تحت حکومت کے خلاف نفرت پیدا کرنے یا پھر آزادی سے متعلق بیانات پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس میں بیرونی میڈیا اداروں کو بھی ‘سختی سے مینیج’ کرنے کی بات گہی گئی ہے اور اس طرح بیجنگ نے واضح طور پر ہانگ کانگ کے مقامی میڈیا اور بیرونی میڈیا دونوں پر قابو پانے اور سختی کرنے کا اشارہ دیا ہے۔
ہانگ کانگ میں مقیم نامہ نگار سرزمین چین سے باہر معلومات کا ایک اہم ذریعہ رہے ہیں۔ تاہم اب حکام کی جانب سے ان سے بار بار کی سخت پوچھ گچھ سے یہ عمل بری طرح متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ اس پس منظر میں اب صحافیوں کو بھی یہ خوف ستانے لگا ہے کہ کہیں اگر وہ بھی وہی رپورٹ کرنے لگے جو دوسرے کر رہے ہیں تو وہ نا دانستہ طور پر سرخ لکیر عبور کرسکتے ہیں۔