برصغیر کی جدوجہد آزادی کے موضوع پر لکھی گئی مشہور کتاب ‘فریڈم ایٹ مڈنائٹ’ کے مصنّفین لیری کولنز اور ڈومینک لاپیئر نے بالکل درست لکھا ہے کہ: ‘اگر اپریل 1947 میں ماؤنٹ بیٹن، جواہر لال نہرو یا مہاتما گاندھی میں سے کسی کو بھی اس غیر معمولی راز کا علم ہو جاتا جو بمبئی کے ایک مشہور طبیب ڈاکٹر ج اے ایل پٹیل کے دفاتر کی تجوری میں انتہائی حفاظت سے رکھا ہوا تھا، تو شاید ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا اور آج ایشیا کی تاریخ کا دھارا کسی اور رخ پر بہہ رہا ہوتا۔ یہ وہ راز تھا جس سے برطانوی سیکرٹ سروس بھی آشنا نہ تھی۔ یہ راز قائد اعظم محمد علی جناح کے پھیپھڑوں کی ایک ایکسرے فلم تھی، جس میں بانی پاکستان کے پھیپھڑوں پر ٹیبل ٹینس کی گیند کے برابر دو بڑے بڑے دھبے صاف نظر آ رہے تھے۔ ہر دھبے کے گرد ایک بالا سا تھا جس سے یہ بالکل واضح ہو جاتا تھا کہ تپ دق کا مرض قائد اعظم محمد علی جناح کے پھیپھڑوں پر کس قدر جارحانہ انداز میں حملہ آور ہوچکا ہے۔’
ہر سال کی طرح اس سال بھی 14 اگست کو ” یوم ِآزادی ” عقیدت و احترام کے ساتھ نئے جوش نئے ولولے اور حب وطن کے جزبہ سے سرشار ہو کر منائی جا رہی ہے۔ زندہ قومیں اپنے محسنوں اور اپنے قومی تہواروں کو دلی محبت ، چاہت کے ساتھ اس عہد کے ساتھ مناتی ہے کہ جب ضرورت پڑی تو ملکی سلامتی کے لئے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریخ نہیں کیا جائیگا ۔ اسلامی جموریہ پاکستان کا چپہ چپہ کریہ کریہ نگر نگر گواہ ہے جب بھی ملک عزیز کو ” اپنے باسیوں کے خون ” کی ضرورت پڑی تو غیرت مند ماؤں کے جگر گوشوں نے اپنا لہو وطن کی سلامتی کے لئے ” پانی اور پسینہ ” کی طرح بہایا ہے۔ آج ہم قربانی کی بات بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی کریں گئے ۔ تاریخ گواہ ہے جب قائد اعظم محمد علی جناح کی رہائش گاہ زیارت پر جب ڈاکٹر الٰہی بخش نے قائد اعظم محمد علی جناح کا سرسری معائنہ کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کا معدہ تو بالکل ٹھیک ہے لیکن ان کے سینے اور پھیپھڑے متاثر ہے ڈاکٹر الٰہی بخش کے مشورے پر اگلے دن کوئٹہ کے سول سرجن ڈاکٹر صدیقی اور کلینیکل پیتھالوجسٹ ڈاکٹر محمود ضروری آلات اور سازو سامان کے ساتھ زیارت پہنچ گئے۔ انھوں نے فوری طور پر قائد اعظم محمد علی جناح کے ٹیسٹ کیے جن کے نتائج نے ڈاکٹر الٰہی بخش کے ان خدشات کی تصدیق کر دی کہ وہ تپ دق کے مرض میں مبتلا ہیں۔
ڈاکٹر الٰہی بخش نے قائد اعظم محمد علی جناح کے مرض کے حوالے سے سب سے پہلے فاطمہ جناح کو مطلع کیا اور پھر ان ہی کی ہدایت پر اپنے مریض کو بھی آگاہ کر دیا گیا۔ ڈاکٹر الٰہی بخش لکھتے ہیں: ‘قائد اعظم نے جس انداز میں میری تشخیص کو سنا، میں اس سے انتہائی متاثر ہوا۔’ جب ڈاکٹر الٰہی بخش نے قائد اعظم محمد علی جناح کو بتایا کہ انھیں تب دق ( ٹی بی) کا مرض لاحق ہے تو قائد اعظم محمد علی جناح نے جواب دیا: ‘ڈاکٹر، یہ تو میں 12 برس سے جانتا ہوں، میں نے اپنے مرض کو صرف اس لیے ظاہر نہیں کیا تھا کہ ہندو میری موت کا انتظار نہ کرنے لگیں۔’ ڈاکٹر پٹیل نے قائد اعظم محمد علی جناح کی درخواست پر ان ایکس ریز کے بارے میں کبھی کسی کو کچھ نہ بتایا۔ تاہم انھوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کو علاج اور صحت یابی کے لیے یہ مشورہ ضرور دیا کہ ان کا علاج صرف اور صرف آرام میں مضمر ہے۔ مگر بانی پاکستان کے پاس آرام کا وقت کہاں تھا؟
ان کے پاس وقت کم تھا اور کام بہت زیادہ تھا اور وہ باقاعدہ علاج کا اہتمام کبھی نہ کرسکے۔ وہ اتنی آہنی ہمت کے مالک تھے کہ انھوں نے اپنے مرض کے بارے میں اپنی عزیز ترین بہن کو بھی آگاہ نہیں کیا، حتیٰ کہ انھوں نے ڈاکٹر الٰہی بخش کو بھی اپنے راز سے اس ہی وقت آگاہ کیا جب وہ خود یہی تشخیص کر چکے تھے۔
ماؤنٹ بیٹن نے خاصے طویل عرصے بعد لیری کولنز اور ڈومینک لاپیئر کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ساری طاقت جناح کے ہاتھ میں تھی۔ ‘اگر کسی نے مجھے بتایا ہوتا کہ وہ بہت کم عرصے میں ہی فوت ہوجائیں گے تو میں ہندوستان کو تقسیم نہ ہونے دیتا۔ یہ واحد صورت تھی کہ ہندوستان متحدہ صورت میں برقرار رہتا۔ راستے کا پتھر صرف مسٹر جناح تھے، دوسرے رہنما اس قدر بے لوچ نہیں تھے اور مجھے یقین ہے کہ کانگریس ان لوگوں کے ساتھ کسی مفاہمت پر پہنچ جاتی اور پاکستان تاقیامت وجود میں نہ آتا۔
حقیقت میں پاکستان کا معرض وجود میں آنا ایک قدرت کی طرف سے معجزہ اور مقصد ہے۔ جب تک پاکستان کے قیام کے مقاصد پورے نہیں ہو جاتے اس نظریاتی مملکت خداداد کو دشمنوں اور دوستوں کی سازشوں چالوں اور مکروفریب سے عارضی نقصان تو ہوسکتا ہے مگر صفحہ ہستی سے مٹانے والہ خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ پاکستان صرف ایک ملک نہیں بلکہ ایک نظریہ ایک تحریک ہے جس کی نسبت مدینہ کے ساتھ ہے۔ صرف ایک مثال پیش کرتا ہوں کہ دوجہانوں کے سردارالانبیاء خاتم النبیین حضرت محمد ۖ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے نبوت کا اعلان حق 40 سال کی ظاہری عمر مبارک کے بعد کیا حالانکہ آپ ۖ کا فرمان عالی شان ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا اس وقت بھی نبی تھا جب حضرت آدم علیہ الاسلام مٹی اور پانی کے درمیان تھے۔
یعنی ظاہری عمر شریف کے چالیس سال بعد نبوت کا اعلان اور پھر یثرب کا نام ” مدینہ ” رکھا گیا ۔ اس سے قبل دنیا کے نقشہ پر مدینہ نام کی کوئی ریاست نہیں تھی۔ اسی طرح 1906 میں قائم ہونے والی آل ا نڈیا مسلم لیگ کو قائد اعظم محمد علی جناح نے 1907 میں جوائن کیا اور 40 سال بعد 1947 کو دنیا کے نقشہ پر نئی اسلامی مملکت پاکستان معرض وجود میں آگئی۔ خاص نقطہ 1947 سے قبل دنیا کے نقشہ پر پاکستان نام کی کوئی ریاست جیسا اعلان بنوت سردارالانبیاء خاتم النبیین حضرت محمد ۖ سے قبل مدینہ نام کی موجود نہ تھی!پھر مدینہ کا مطلب اور پاکستان کا مطلب ایک ہے یعنی پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ ۔ دشمنان اسلام اور دشمنان ِ پاکستان کے لئے صرف اتنا ہی کہتا ہوں کہاللہ تعالیٰ نے خاص مقاصد کے لئے پاکستان بنایا ہے اور وہ خاص مقاصد پاکستان ضرور حاصل کرے گا