بیروت (اصل میڈیا ڈیسک) بیروت میں ہونے والے تازہ ترین خونریز دھماکوں میں جہاں 170 سے زائد افراد لقمہ اجل بنے اور چھ ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے وہاں اس واقعے نے خاص طور سے بچوں کو شدید ذہنی صدمے اور سکتے کی کیفیت سے دوچار کر دیا ہے۔
لبنان کا دارالحکومت جو کبھی عروس البلاد کہلاتا تھا 4 اگست کو پورے ملک کو لرزا دینے والے دھماکوں کا شکار ہوا۔ ملک کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو کر رہ گیا، سیاسی اور معاشرتی طور پر یہ ملک کئی دھائیوں پیچھے چلا گیا ہے۔
ایک طرف اس ملک کا سیاسی مستقبل غیر واضح ہے اور ایک بار پھر یہ ملک بیرونی طاقتوں کی امداد اور ہر طرح کی مداخلت کا مرہون منت ہے تو دوسری جانب لبنانی عوام کے لیے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ بیروت دھماکوں کے نتیجے میں گھر سے بے گھر ہونے والے قریب 80 ہزار بچوں کا مستقبل کیسا ہوگا؟ اقوام متحدہ کے بہبود اطفال کے ادارے یونیسیف کے اندازوں کے مطابق بے گھر ہونے والے قریب 80 ہزار بچوں اور ان کے خاندانوں کو ہر طرح کے سپورٹ کی ضرورت ہے۔ بیروت کی بندرگاہوں کی اہمیت ملک کی ‘لائف لائن‘ کی سی ہے۔ اس علاقے میں ہونے والے اتنے تباہ کن دھماکوں نے اس ‘لائف لائن‘ سے زندگی چھین لی ہے۔
جس وقت بیروت میں یہ دھماکے ہوئے اُس وقت 3 سالہ عابد آچی اپنے لیگو بلاکس سے کھیل رہا تھا۔ دھماکے سے اُس کے نزدیک ہی شیشے کا ایک دروازہ چکنا چور ہو کر گرا۔ اُس کے سر، پیروں ، ہاتھوں اور جسم کے مختلف حصے بری طرح زخمی ہوئے اور عابد کو فوری طور سے ایمرجنسی میں پہنچایا گیا جہاں فرش پر چاروں طرف خون ہی خون بہہ رہا تھا۔
اس کی ماں حبا آچی، جو عابد کو اُس کی دادی کے پاس چھوڑ کر کام پر گئی ہوئی تھی ، نے بتایا کہ اس کا بچہ شدید خوف میں مبتلا ہے اور ہر سرخ چیز کو دیکھ کر ڈر جاتا ہے، یہاں تک کہ اگر ماں اُسے سرخ جوتے پہنانے لگے تو وہ نہیں پہننا چاہتا اور ماں سے ضد کرتا ہے کہ وہ اس کے جوتے دھو کر اس کا سرخ رنگ صاف کرے۔ اس کے بعد کے دنوں میں عابد آچی لبنان کے ہزاروں دیگر بچوں کی طرح صدمے سے چور ہے اور ویسا نہیں رہا جیسا وہ 4 اگست کو ہونے والے دھماکوں سے پہلے تھا۔
بچوں کی دیکھ بھال کے انٹرنیشنل ادارے سیو دا چلڈرن کے مطابق کم از کم ایک لاکھ بچے اپنے گھروں سے بے گھر ہو گئے ہیں جبکہ لاتعداد ذہنی صدمے کا شکار ہیں۔ سیو دا چلڈرن سے منسلک ذہنی امراض کی ایک ماہر ابی حبیبی کا کہنا ہے کہ ذہنی صدمے کے شکار بچوں کا رویہ ایسے ہی نوجوانوں کے مقابلے میں مختلف ہے۔ ہلکا سا شور بھی ان بچوں کو بے چین کر دیتا ہے۔ وہ اُچھلنا شروع کر دیتے ہیں، چیختے چلاتے ہیں۔ اس کے برعکس جو نوجوان یا تھوڑے بڑے افراد شدید سر کے درد، متلی، بستر گیلا ہوجانے، ہاضمے کی خرابی وغیرہ جیسی جسمانی بیماریوں کی علامات کا شکار ہیں۔
زینب غزال کی 8 سالہ یاسمین اور 11 سالہ تالیا نے خوف کے مارے اپنے کمروں میں سونا چھوڑ دیا ہے۔ بیروت کے دھماکوں سے ان کے اپارٹمنٹ کے کھڑکی کے دروازے ٹوٹ گئے تھے اور شیشے کی کرچیاں ان کے کمرے میں جا بجا بکھر گئی تھیں۔
زینب کا کہنا ہے کہ وہ اور اس کی بچیاں معجزاتی طور پر بچ گئے۔ اس نے اپنی بچیوں کو اس اپارٹمنٹ سے نکال کر کہیں اور منتقل کر دیا ہے۔ اس کی چھوٹی بیٹی ماں سے پوچھتی رہتی ہے کہ اس کا بچپن کہاں کھو گیا۔ وہ نارمل بچوں کی طرح کی زندگی کیوں بسر نہیں کر سکتی، اُسے یہ سب کچھ کیوں جھیلنا پڑا؟
عروس البلاد کھنڈرات میں تبدیل ہو گیا۔
ان سوالوں کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ ایک ماہر نفسیات ماھا غزال کا کہنا ہے کہ دھماکوں کے بعد بہت سے بچے بے یقینی کا شکار ہیں۔ وہ مسلسل پوچھ رہے ہیں کہ کیا ایسا دھماکا پھر ہوگا؟ وہ کہتی ہیں، ”بہت سے بچے واپس اپنے گھروں میں جانے سے انکار کر رہے ہیں، انہیں شیشے کے کھڑکی دروازے خوفزدہ کر رہے ہیں۔‘‘
دو بچوں کی ماں اشکر کہتی ہے، ”ہماری نسل ہمیشہ کے لیے صدمے سے دوچار ہو گئی۔‘‘ ان کا اشارہ لبنان کی اُس نسل سے ہے جو جنگ میں پروان چڑھی۔ اُس کا سوال نہ جانے کس سے ہے کہ، ‘ہمارے بچوں کو بھی اب اس سے کیوں گزرنا پڑ رہا ہے‘؟