اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان کے آرمی چیف کشمیر کے معاملے پرسعودی عرب کے ساتھ سفارتی تناو کو دور کرنے کے لیے 16 اگست کو ریاض جائیں گے کیوں کہ اس مسئلے کی وجہ سے اسلام آباد کوملنے والی سعودی مالی امداد معلق ہوگئی ہے۔
دونوں ممالک روایتی طورپر ایک دوسرے کے انتہائی قریب ہیں اور سعودی عرب نے 2018 میں پاکستان کو تین ارب ڈالر کا قرض اور تین ارب 20 کروڑ ڈالر کا تیل قرض پر دینے کی سہولت دی تھی تاکہ اسلام آباد کو ادائیگیوں کے بحران کے توازن میں مدد ملے۔
لیکن ریاض پاکستان کی جانب سے اس تنقید کے بعد سے سخت ناراض ہے کہ سعودی عرب کشمیر کے علاقائی تنازع کے حل کے سلسلے میں کچھ نہیں کررہا ہے۔
پاکستان کے دو سینیئر فوجی حکام نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے آئندہ اتوار کو سعودی عرب کے مجوزہ دورے کو حوصلہ افزا قرا ردیا۔ پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے روئٹرز کو بتایا کہ ‘ہاں وہ سفر کر رہے ہیں، یہ دورہ پہلے سے طے شدہ تھا اور ‘بنیادی طور پر فوجی امور پر مبنی تھا’۔
گزشتہ اگست میں بھارت نے اپنے زیر انتظام والے جموں وکشمیر کو ملک میں ضم کر لیا تھا جس کے بعد سے پاکستان، اقوام متحدہ کے بعد سب سے بڑی تنظیم تصور کی جانے والی 57 اسلامی ممالک پر مشتمل اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) سے وزرائے خارجہ اجلاس بلانے پر زور دے رہا ہے۔
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے گزشتہ ہفتے غیر معمولی طور پر سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے سعودی عرب کی زیر قیادت او آئی سی سے کہا تھا کہ وہ کشمیر کے بارے میں وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس کے انعقاد کے سلسلے میں پس و پیش سے کام لینا بند کرے۔
پاکستانی وزیر خارجہ کے اس بیان کے بعد سعودی عرب نے دو ہفتے قبل پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی ادائیگی کرنے پر مجبور کیا تھا جس کی وجہ سے یہ اپنے قریبی اتحادی چین سے قرض لینے پر مجبور ہوگیا تھا جبکہ ابھی تک ریاض نے تیل کے قرضوں کی سہولت میں توسیع کی پاکستان کی درخواست پر کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے ایک پاکستانی نیوز چینل کے ٹاک شو میں حصہ لیتے ہوئے کہا تھا”میں ایک بار پھر احترام کے ساتھ او آئی سی کو بتا رہا ہوں کہ ہم وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس کی توقع کرتے ہیں، اگر آپ اس کو طلب نہیں کرسکتے ہیں تو پھر میں وزیراعظم عمران خان کو ان اسلامی ممالک کا اجلاس طلب کرنے پر مجبور کروں گا جو مسئلہ کشمیر پر ہمارے ساتھ کھڑے ہونے اور مظلوم کشمیریوں کی حمایت کے لیے تیار ہیں۔”
پاکستانی وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے گزشتہ دسمبر میں سعودی عرب کی درخواست پر کوالالمپور سمٹ چھوڑ دیا تھا اور اب پاکستانی مسلمان ریاض سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ اس معاملے پر قائدانہ صلاحیتیں دکھائے۔
خیال رہے کہ او آئی سی کے کشمیر سے متعلق غیر فعال ہونے پر اسلام آباد میں مایوسی گزشتہ کئی ماہ سے بڑھ رہی ہے اور وزیر اعظم عمران خان نے فروری میں ملائیشیا کے دورے کے موقع پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری کوئی آواز نہیں ہے اور ہماری صفوں میں تقسیم ہے، ہم کشمیر سے متعلق او آئی سی کے اجلاس میں مجموعی طور پر اکٹھے تک نہیں ہو سکتے۔
پاکستانی فوج کے ایک افسر اور حکومت کے مشیر کا کہنا ہے کہ قریشی کے بیان نے سعودی عرب کو ایک بار پھر غصہ دلا دیا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تلخی کا اس وقت عالم یہ ہے کہ دو ہفتے قبل پاکستان کو سعودی عرب کا قرض ادا کرنے کے لیے چین سے ایک ارب ڈالر قرض لینا پڑا تھا اور آئل کریڈٹ کی سہولت بڑھانے کی اسلام آباد کی درخواست کا ریاض نے اب تک کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
پاکستانی وزارت خزانہ کے ایک افسر نے روئٹرزکو بتایا کہ”(آئل کریڈٹ سہولت کا) پہلاسال 9 جولائی 2020 کو مکمل ہوگیا ہے۔ اس سہولت میں توسیع کے حوالے سے ہماری درخواست سعودی عرب کے زیر غور ہے۔”
پاکستانی وزارت خزانہ کے ایک افسر اور آرمی کے ایک افسر نے مزید بتایا کہ سعودی عرب اپنی ایک ارب ڈالرکی واپسی کا بھی مطالبہ کررہا ہے۔ سعودی عرب کے میڈیا آفس نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
خیال رہے کہ 25 لاکھ سے زائد پاکستانی شہری سعودی عرب میں ملازمت کرتے ہیں۔