حالیہ چند برسوں سے سبزی خور طرز زندگی پھیل رہا ہے۔ زیادہ تر سبزی خور گوشت خوروں کی نسبت پتلے اور صحت مند ہوتے ہیں لیکن اب سائنسدانوں نے نئے حقائق بھی تلاش کیے ہیں۔
جرمنی کی ‘فوکس آن لائن‘ ویب سائٹ کے مطابق ہر جرمن شہری روزانہ اوسطا 150 گرام گوشت کھاتا ہے۔ یہ زیادہ تو نہیں لگتا لیکن یہ جرمن ایسوسی ایشن برائے نیوٹریشن کی سفارشات سے زیادہ ہے۔ اس تنظیم کے مطابق فی ہفتہ 600 گرام سے زیادہ گوشت نہیں کھانا چاہیے۔
اس تحقیق کے مطابق کم گوشت کھانا ایک اچھی چیز ہے اور اگر آپ مکمل طور پر بھی اسے ترک کر دیں گے تو جسم کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔
جرمن ماہر غذائیت اور تحقیقی ادارہ برائے سرطان کے ڈاکٹر ٹلمن کوہن کہتے ہیں، ”جو شخص صرف سبزیاں کھاتا ہے، اس کے جسم کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا بلکہ سائنسی مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ سبزیاں زیادہ صحت بخش اور غذائیت سے بھرپور ہوتی ہیں۔‘‘
طبی ماہرین بحیرہ روم کے ارد گرد کے ممالک کی غذائی عادات کو بہترین قرار دیتے ہیں۔ ‘میڈیٹرینیئن‘ کھانے کو گزشتہ دو برسوں سے دنیا کا بہترین اور صحت مندانہ کھانا قرار دیا جا رہا ہے۔ اس خطے میں سبزیوں، مچھلی اور زیتون کے تیل کا زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ یہاں کے لوگ سرخ گوشت اور زیادہ بھنے ہوئے کھانے کم کھاتے ہیں۔
فوکس آن لائن ویب سائٹ کے مطابق مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ بہت زیادہ گوشت کھانے والوں کی غذا عام طور پر غیر صحت بخش ہوتی ہے کیونکہ اس میں چربی اور صحت کے لیے نقصان دہ دیگر اجزا زیادہ مقدار میں پائے جاتے ہیں۔
تاہم یہ بھی کہا گیا ہے کہ گوشت خور اور سبزی خور افراد کی صحت کا تعلق کئی دیگر عناصر سے بھی ہے۔ ہمیشہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایک گوشت خور انسان غیر صحت مند اور سبزی خور ہمیشہ صحت مند ہی ہو گا۔ مثال کے طور پر ایک گوشت خور انسان اچھی طرح ورزش کرتا ہے تو وہ ایک سگریٹ نوش سبزی خور سے زیادہ صحت مند ہو سکتا ہے۔ تحقیق کے مطابق یہ کھانے کے اجزا ہوتے ہیں، جو انسانی خلیات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
گائے، سور یا بھیڑ وغیرہ کے گوشت کو سرخ گوشت قرار دیا جاتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق دل اور افشار خون کی زیادہ تر بیماریاں ان کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ اسی طرح کینسر جیسی بیماری کو بھی سرخ گوشت سے بلواسطہ یا بلاواسطہ جوڑا جاتا ہے۔
کئی ایسے مطالعات بھی ہیں، جن کے مطابق سرخ گوشت بڑی آنت کے کینسر کا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔ اس کے برعکس مرغی وغیرہ کا گوشت صحت کے لیے کم نقصان دہ ہے۔ اس کے علاوہ طبی ماہرین مچھلی کو صحت مند قرار دیتے ہیں۔
میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ فار ہیومن کے جینٹیو اینڈ برین سائنسز (ایم پی آئی سی بی ایس) اور لائپزگ یونیورسٹی ہسپتال کے محققین نے تقریبا نو ہزار افراد پر تحقیق کی تھی۔ یہ مطالعہ جون 2020 میں جریدے ‘نیوٹرینٹ‘ میں شائع ہوا ۔ اس تحقیق کے نتائج یہ تھے کہ جس شخص کے دستر خوان پر جس قدر گوشت سے بنے کھانے کم تھے، اسے کھانے والوں کا باڈی ماس انڈیکس اور جسمانی وزن بھی کم تھا۔
اس تحقیق کی مرکزی مصنف ایولین میڈور کا وضاحت کرتے ہوئے کہنا تھا، ” ایسی مصنوعات، جن میں زیادہ مقدار میں چربی اور چینی ہوتی ہے، وہ آپ کو موٹا بناتی ہیں۔ ان سے زیادہ بھوک لگتی ہے اور پیٹ بھر جانے کا احساس بھی کم ہو جاتا ہے۔‘‘
کئی لوگوں کے خیال میں اگر گوشت استعمال نہ کیا جائے تو اس کے نفسیاتی اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں لیکن سائنسدانوں کے مطابق ابھی تک ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ گوشت کھانے یا نہ کھانے کے انسانی نفسیات پر اثرات مرتب ہوتے ہوں۔