مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارلخلافہ اسلام آباد سے ناران تک بائی روڈسات گھنٹے کا سفر ہے، جسے ہم نے دو گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ طے کیا۔ درمیان میں ایبٹ آباد اور مانسہرا میںتین ٹنلز کراس کرنی پڑتی ہیں۔ یہ ٹنلز پاکستان چین کی لا زوال دوستی کی تصویر پیش کرتی ہیں۔ جو ایک کہاوت کے مطابق سمندر سے گہری، ہمالیہ سے اُونچی اور شہد سے میٹھی ہے۔ چلتے چلتے جب آپ بالاکوٹ پہنچتے ہیں تو آپ سے دوستی نبہانے کے لئے دریائے کنہار بھی آپ کے ساتھ شامل ہو جاتا ہے۔ کاغان ناران سے پہلے بالا کوٹ، وہی جگہ ہے جہاں سید احمد شہید اور سید شاہ اسماعیل شہید اسلام کی سربلندی کے لیے سکھوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے تھے ۔ان دونوں شہیدوں کے مقبرے بالا کوٹ میں ہیں۔ جب بالاٹ کوٹ زلزلہ کی وجہ سے تباہ ہو گیا تھا تو ان دو مردانِ با صفا کے مقبروں کو اللہ تعالی ٰنے اپنی شان کریمی سے محفوظ رکھا تھا۔ یہ وہ ہستیاں ہیں جو اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے اپنے مجائدین کے ساتھ سکھوں سے نبرد آزما ء ہوئے تھے۔کاذب مرزا غلام احمدقادیانی کے والد نے سکھوں سے مل کر ان کے خلاف لڑائی کی تھی۔ اس غداری کے عوض سکھوں نے قادیان میں انہیں جاگیر عطا کی تھی۔
دریائے کنہار اُوپر پہاڑوں سے بہتا ہوا ناران آتا ہے۔ناران کے مقام پر اس میں جھیل سیف لملوک سے نکلتا ہوا پانی بھی اس میں شامل ہوتا ہے۔ دریائے کنہار بالاکوٹ سے نیچے کی طرف بہتا ہو گھڑی حبیب اللہ کے راستے دریائے جہلم ،جو کشمیر کی جھیل ڈل سے نکلنے والے دریائے جہلم میں ،کوہالہ اور مظفر آباد کے درمیان کسی جگہ مل جاتا ہے۔دریائے نیلم اور دریائے جہلم مظفر آباد شہر میں آپس میں یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مل کر دریائے جہلم کا روپ دھار لیتے ہیں۔ کررونا وائرس کی کمی کے باعث تین پہلے ہی ہوٹلز کھولنے کی اجازت ملی تھی۔ رش کم تھا پھر بھی ناران بازار میں گزرتے ہوئے کافی وقت لگا۔ہم اپنے دو بچوں کی فیملی کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ سات گھنٹے کے مسلسل سفر کے بعد تھکاوٹ ہو گئی تھی۔ واش روم اور ہاتھ منہ دھونے کے بعد دو پہر کے کھانے کے لیے ناران، مین روڈ پر پنجاب ٹکہ ہائوس کی چار پائیوں پر بیٹھ گئے۔ کھانے کے بعد بیٹوں نے جھیل سیف الملوک جانے کے لیے جیب لی۔ ناران سے اُوپر جھیل سیف الملوک تک کا خطر ناک پہاڑی راستہ چالیس منٹ کا ہے۔
سارا راستہ پہاڑی پتھروں والا تھا۔ جیپ پتھروں پر بار بار اُچھل رہی تھی۔ معلوم ہوا کچھ عرصہ پہلے ناران سے جھیل سیف الملوک جانے کے لیے لوگ یا تو پیدل سفر کرتے تھے یا پھرخچروںپر بیٹھ کر جاتے تھے۔ جھیل کے راستے ہی میں ارد گرد پہاڑوں پر گلیشیئر نظر آ تے ہیں۔ ایسا ہی ایک گلیشیئر سڑک کے درمیان سے نیچے کے طرف کھائی میں گرتا ہوا دکھائی دیا۔ قدرت کا عجیب کرشمہ ہے کہ یہ گلیشیئر سڑک کے کنارے غار نما بنا ہوا ہے۔ غار کے اندر سے پانی بہہ رہا ہے۔اس پر کسی مقامی شخص نے برف کی کرسی بنائی ہوئی ہے۔ لوگ کرسی پر بیٹھ کر تصوریں بناتے ہیں۔ مقامی شخص کی روزی کا بہانہ بنا ہوا ہے۔ جھیل سیف الملوک کے تینوں طرف بلند بالا پہاڑوں پر گلیشیرز نظر آتے ہیں۔ جس سے پانی رس رس کر جھیل میںجمع ہوتا رہتا ہے۔پھرنیچے کھائی کے راستے دریائے کنہار میں شامل ہو جاتا ہے۔
جھیل میں کشتیوں پر سوار ہوکر لوگ انجائے کرتے ہیں۔ جھیل کے پاس بچوں بڑوں کے لیے خچر موجود ہیں۔سیاح خچروں پر بیٹھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جھیل سیف الملوک میں انتظاما ت بے حد ناکس ہیں۔ اتنے عجیب غریب منظر اور قدرت کے شاہ کار،جس کے چاروں طرف پھیلے گلیشیئر عجیب منظر پیش کر رہے ہیں، بے یارو مددگار چھوڑ دینا کہاں کا انصاف ہے؟جھیل کے قریب زمین میں پتھروں کا فرش بنانا چاہیے ۔ اس سے راستہ پلین ہو جائے گا۔ سیاح جن کے ساتھ عورتیں اور بچے ہوتے ہیں۔ آرام سے جھیل تک پہنچ سکیں گے۔ جھیل کے پاس جھوپڑیوں والے ہوٹوںکے بجائے خوبصورت ہٹس بنائے جا سکتے ہیں۔جن میں فیملیز بیٹھ کر آرام سے کھانا یا چائے پکوڑوں وغیرہ سے لطف اندوز ہوں۔ سیاحتی مقام کو مناسب خوبصورت بنا کر کافی زر مبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔ شاید ان ہی نامناسب انتظامات کی وجہ سے ہمیں تو کوئی ایک بھی غیر ملکی سیاح نظرنہیں آیا۔ سارے کے سارے سیاح پاکستانی تھے۔ شاید اس کی وجہ کررونا کی پابندیاں بھی ہو سکتیں ہیں۔ دس پندرہ دکانوں پر کچھ گفٹ آٹمز بھی رکھے ہوئے ہیں
۔ہوٹل میں ایک قصہ گو سے بھی ملاقات ہوئی۔ اس کے مطابق سیف الملوک ایک شہزادہ تھا۔پھر آگے ایک نہ ختم ہونی والی کہانی۔۔۔۔۔ہوٹل والوں نے بتایا کہ ہم صرف تین ماہ یہاں رکتے ہیں۔ پھر اپنا ساراسامان اُٹھا کر نیچے مانسہرا چلے جاتے ہیں۔ کیوں کہ یہاں آٹھ آٹھ فٹ برف پڑتی ہے۔ سارا علاقہ برف سے سفید ہو جاتا ہے۔پھر سات ماہ گلیشیئر پگھلتے رہتے ہیں ۔ سارا سال پانی ندی نالوں میں سے بہتا ہوا نیچے دریائے کنہار میں جاتا رہتا ہے۔ جھیل سیف الملوک سطح سمندر سے آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ اسی لیے سردیوںمیں یہاں انسان نہیں رہ سکتا ہے۔
٢ بالاکوٹ سے ناران جاتے ہوئے پہاڑوں سے چشمے بہہ بہہ کر سڑک پر پانی ہی پانی کر دیتے ہیں۔ کہیں چھوٹی چھوٹی آبشاریں نظر آتیں ہیں۔ان آبشاروں کی ڈلہانوں پر کرسیا ں اور چارپائیوں والے چھوٹے چھوٹے ہوٹل بنے ہوئے ہیں۔ فیملی راستے میں آرام کرنے، کھانا اور چائے نوش کرنے کے لیے یہاںرکتے ہیں۔ کاغان ناران کے راستے میں جگہ جگہ ماڈرن ہوٹلز ہی ہوٹلز ہیں۔ راستے میں چھوٹی چھوٹی آبادیاں ہیں۔ سڑک کبھی پہاڑی کی دائیں طرف ہوتی ہے ۔ کہیں بائیں طرف مڑ جاتی ہے۔ ایک جگہ ڈیم بھی بن رہا ہے۔ اس لیے اس ایریا میں سڑک خراب ہے۔ گو کہ مری، سوات اور گلیات جیسا ہریالی والاسماء نہیں ۔ لیکن سارے راستے میں بہتا ہو ئے دریائے کنہار نے علاقے کی خوبصورتی میں اضافہ کیا ہوا ہے۔ یہی منفرد خوبصورتی ہے جو سیاحوں کو یہاں کھینچ لاتی ہے۔
ناران سے اونچائی کی طرف جاتے ہوئے ایک پل کراس کریں تو ایک کھلی جگہ آتی ہے۔ یہاں پکنک پوئنٹس بنے ہوئے ہیں۔یہاںواٹر بوٹس موجود ہیں۔ بہت ہی خوبصورت منظر ہے۔ اسی جگہ کچھ سال قبل کراچی سے آئے ایک اسکول کے بچوں کی پکنک پارٹی نے پڑھائو ڈالا تھا۔ ان کے ساتھ بچوں کے اسکول کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ جماعت اسلامی کراچی کے رہنما،جناب شہید نصراللہ شجیع، سابق ممبر سندھ اسمبلی بھی موجود تھے۔ دریائے کنہار کے کنارے بیٹھے ایک بچے کا اچانک پائو پھسل گیا۔ وہ دریا کی تیز موجوں میں بہنے لگا۔ اس نے مدد کے لیے پکارنا شروع کیا۔نصراللہ شجیع شہید نے بچے کو بچانے کے لیے دریائے کنہار میں بے ساختہ چھلانگ لگا دی۔ مگر بچے کو بچاتے بچاتے خود بھی دریائے کنہار کے بے رحم اور تیز بہائو میں بہہ گئے۔
دونوں شہیدوں کی بہت تلاش کی گئی مگر ان کی لاشیں تک نہ مل سکیں۔ ایک اُستاد کے اپنے شاگرد سے اس ہمدردنانہ اور بہادرانہ رویہ پر، نصراللہ شجیع کو حکومت پاکستان نے ، بعد از شہادت تخمہ شجاعت سے نوازا۔ میرے بچوں کی فیملی ارد گرد انجائے کر رہی تھیں اور میںدریائے کنہار کے کنارے بیٹھا اپنے اُس تحریکی ساتھی کے غم میں کچھ وقت مبتلا رہا، کہ تقدیر کے یہی فیصلے ہیں جس پر ہر مسلمان کا ایمان ہے۔
ہم گرم کپڑے ساتھ لے گئے تھے جو صرف جھیل سیف الملوک کے وقت ہی کام آئے۔نیچے ناران میںموسم زیادہ سرد نہیں تھا۔ ایک رات ہوٹل میں گزاری۔ صبح دریائے کنہار کے کنارے ہوٹل میں بیٹھ کر ناشتہ کیا۔ پھر واپس اسلام آباد عازم سفر ہوئے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر کہ دو گاڑیوں کا قافلہ شام پانچ بجے اپنے گھر اسلام آباد پہنچا۔