اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی چیف لیفٹننٹ جنرل فیض حمید ریاض کے دورے پر ہیں، جہاں وہ سعودی قیادت کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کریں گے۔
دو برس قبل جب عمران خان اقتدار میں آئے تو پاکستان کی معاشی مشکلات کم کرنے کے لیے ریاض نے چھ ارب ڈالر کی امداد کی حامی بھری جس میں تین ارب پاکستانی زرمبادلہ بڑھانے کے لیے اور بقیہ پیسہ ادھار پر تیل کے لیے تھا۔ عام تاثر یہ ہے کہ یہ مالی امداد ممکن بنانے میں جنرل باجوہ کا اہم کردار تھا۔
لیکن ناقدین کے خیال میں عمران خان حکومت کی سعودی پالیسی کچھ ابہام کا شکار رہی ہے۔ کبھی پاکستان نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کی بات کی تو کبھی ترکی اور ملائشیا کے ساتھ مل کر سعودی عرب کو چیلنج کرنے کا تاثر دیا۔ تازہ تلخی اس وقت پیدا ہوئی جب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ریاض کو مسئلہ کشمیر پر ہدف تنقید بنایا۔
اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے وابستہ ڈاکٹر بکارے نجم الدین کے خیال میں ریاض چاہتا ہے کہ اسلام آباد واضح ایران مخالف لائن لے: ’’سعودی عرب کی موجودہ لیڈرشپ نے کئی معاملات میں انتہائی جارحانہ رویہ اپنایا ہے اور وہ بڑی سرگرمی سے اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کی کوشش کررہا ہے۔ اس میں سب سے بڑی رکاوٹ ایران ہے۔ لہذا وہ یقیناﹰ چاہے گا کہ ایران کے مقابلے میں پاکستان سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہو۔ لیکن اسلام آباد کے لیے ایسا کرنا بہت مشکل ہے۔‘‘
ان کا مذید کہنا ہےکہ آنے والے وقتوں میں دونوں ممالک کے درمیان ماضی جیسی گرم جوشی نہیں رہے گی۔
’’ہمیں سعودی عرب سے اب کسی فیاضی کی توقع نہیں کرنی چاہیے بلکہ ممکن ہے کہ ریاض پاکستان کےخلاف مذید سخت اقدامات کرے۔‘‘
اسی طرح دفاعی تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”سعودی عرب کی یہ خواہش ہو سکتی ہے کہ ہم ایران مخالف پالیسی اپنائیں لیکن پاکستان ایران مخالف لائن نہیں لے سکتا۔ ایران عراق جنگ کے دوران بھی ہم نے اپنی پالیسی غیر جانبدارانہ رکھی تھی اور پاکستان اب بھی یہ ہی چاہے گا کہ وہ اپنی پالیسی غیر جانبدار رکھے۔‘‘
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ تعلقات اتنے خراب نہیں جتنا کہ کہا جا رہا ہے۔
معروف دفاعی مبصر جنرل امجد شعیب کا خیال ہے کہ اس مسئلے کو وہ عناصراچھال رہے ہیں، جو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے خفا ہیں کہ وزارت خارجہ ان کو کیوں مل گئی۔
’’میرے خیال میں ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اگر سعودی عرب نے ہمیں کشمیر کے مسئلے پر سپورٹ نہیں کیا تو ہم نے بھی تو یمن میں فوج بھیجنے سے انکار کیا تھا۔ ہر ملک کا اپنا مفاد ہوتا ہے اور وہ اسی تناظر میں پالیسی بناتے ہیں۔‘‘
جنرل امجد شعیب نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ سعودی عرب نے غصے میں پاکستان سے ایک ارب ڈالر لیے ہیں: ”سعودی عرب کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ آرامکو کے منافع میں زبردست کمی ہوئی ہے۔ لہذا اگر ریاض نے ہمیں دیے ہوئے پیسے واپیس مانگ لے تو اس میں کونسی بڑی بات ہے۔ وہ ہمارا دوست ملک ہے اور ہمیں ان کی مجبوری سمجھنا چاہیے۔‘‘
اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر ظفر نواز جسپال کا خیال ہے کہ تعلقات میں بہتری آجائے گی۔
’’میرا نہیں خیال کہ سعودی عرب پاکستان سے ایران مخالف لائن لینے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ پاکستان ایسی لائن لے بھی نہیں سکتا کیونکہ تہران بیجنگ کے قریب ہے اور اسلام آباد بھی۔ دونوں ممالک کے تعلقات حقیقت پسندی پر مبنی ہیں اور سعودی یہ جانتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات ان کے اپنے مفادات میں ہیں۔‘‘