کراچی (اصل میڈیا ڈیسک) بلوچستان کے سینئر پارلیمینٹیرین حاصل بزنجو جمعرات کو کراچی میں انتقال کر گئے۔ ان کی عمر 62 برس تھی۔ ان کے قریبی ساتھیوں کے مطابق وہ کچھ عرصے سے پھپھڑوں کے سرطان میں مبتلا تھے اور کراچی کے ایک ہسپتال میں زیر علاج تھے۔
میر حاصل بزنجو تیس سال تک اپنی عملی سیاست کے دوران وفاق پاکستان میں بلوچستان کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے رہے۔ وہ سیاست میں فوج کی مداخلت کے خلاف کھل کر اظہار خیال کرتے تھے۔
حاصل بزنجو بلوچستان کے حقوق اور بلوچ قوم پرست سیاست کا حصہ رہے لیکن انہوں نے ہمیشہ وفاق پاکستان کے اندر رہتے ہوئے اپنے حقوق کی بات کی۔
علیحدگی پسند بلوچ تنظیموں نے ان کی اس سیاست پر نکتہ چینی کی اور اس کو موقع پرستی اور اقتدار کی سیاست قرار دیا۔ تاہم میر حاصل بزنجو علیحدگی پسند بلوچوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی حمایت کرتے تھے لیکن وہ مانتے تھے کہ عسکری قوتوں کی عدم دلچسپی کے باعث وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔
انہیں 2019 میں متحدہ اپوزیشن کی طرف سے چیئرمین سینٹ کے امیدوار کے طور پر نامزد کیا گیا۔ تاہم خفیہ رائے شماری میں اپوزیشن کے اپنے اراکان عین وقت پر منحرف ہو گئے اور انہیں اس الیکشن میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے اس شکست کے لیے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹینینٹ جنرل فیض حمید کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔
پاکستان میں سیاسی و سماجی حلقوں نے ان کی جمہوری جدوجہد پر انہیں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
حاصل بزنجو کا تعلق بلوچستان کے ضلع خضدار کی تحصیل نال سے تھا۔ وہ بلوچستان کے سابق گورنر اور بلوچ قوم پرست رہنما میر غوث بخش بزنجو کے صاحبزادے تھے۔
سن 1989 میں وہ اپنے والد کی وفات کے بعد پاکستان نیشنل پارٹی (پی این پی) میں شامل ہو گئے۔ انہوں نے انتخابات میں پہلی بار کامیابی 1991 کے ضمنی الیکشن میں حاصل کی، تاہم 1993 میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بعد میں انہوں نے 1997 میں قومی اسمبلی کا الیکشن جیتا۔
میر حاصل بزنجو متعدد بار بلوچستان سے سینیٹر منتخب ہوئے۔ ان کی نیشنل پارٹی میاں نواز شریف کی اتحادی بھی رہی۔ اس دور میں وہ وفاقی وزیر برائے بندرگاہیں اور جہاز رانی رہے۔
ان کی نماز جنازہ جمعے کو خضدار میں ان کے آبائی علاقے میں ادا کی جائے گی۔