روس (اصل میڈیا ڈیسک) کریملن کے ناقد الیکسی ناوالنی مبینہ طور پر زہر کی ملاوٹ والی چائے پینے کے بعد سے سائبیریا کے شہر اومسک کے ایک ہسپتال میں داخل ہیں اور موت اور زندگی کی کشمکش میں ہیں۔
اگر اس امر کی تصدیق ہو گئی کہ ناوالنی کو چائے میں زہر دیا گیا تھا، تو یہ واقعہ روس میں حکومت کے مخالفین کو رستے سے ہٹانے کے لیے انہیں زہر دینے کی سلسلہ وار کوششوں کی تازہ ترین کارروائی ہوگی۔ کریملن اس الزام کی تردید کرتا آیا ہے کہ وہ روس میں حکومت کی مخالفت اور اس پر تنقید کرنے والوں کا قتل کروا کے انہیں اپنے راستے سے ہٹا دیا کرتا ہے۔
دریں اثناء بہتر طبی سہولیات فراہم کرنے کے لیے جرمنی نے طبی ماہرین اور جدید طبی آلات کے ساتھ اپنی ایک ایئر ایمبولینس اومسک بھیجی ہے تاکہ ناوالنی کو برلن کے شیرٹی ہسپتال لایا جا سکے۔ تاہم ہسپتال انہیں وہاں سے منتقل کرنے کی اجازت نہیں دے رہا کیونکہ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان کی حالت نازک ہے اور وہ سفر نہیں کر سکتے۔جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ماسکو سے کہا ہے کہ وہ ناولنی کو جرمنی منتقل کرنے کے معاملے پر اپنی پوزیشن واضح کرے۔
44 سالہ ناولنی جمعرات 20 اگست کو سائبیریا کے شہر اومسک سے واپس ماسکو جا رہے تھے کہ جہاز پر اچانک اُن کی طبیعیت خراب ہوئی۔ ان کے طیارے کو اومسک میں ایمرجنسی لینڈنگ کرنا پڑی اور انہیں فوری طور پر ہسپتال میں داخل کر دیا گیا۔ ناوالنی کی خاتون ترجمان کیرا یرمیش نے یہ اطلاعات بذریعہ ٹوئٹر دیں۔ کریملن کے ناقد اور مخالف الیکسی ناوالنی کی ترجمان نے ‘ایشو موسکوی‘ ریڈیو اسٹیشن کو واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ جمعرات کو ماسکو واپسی کی فلائٹ پر سوار ہونے سے پہلے ناوالنی نے اومسک ایئرپورٹ کے کیفے میں چائے پی تھی۔ پرواز کے دوران انہیں پسینہ آنا شروع ہوگیا اور انہوں نے اپنی ترجمان یرمیش سے کہا کہ وہ ان سے باتیں کرے تاکہ وہ ‘ آواز پر فوکس ‘ کر سکیں۔ اس کے بعد وہ واش روم گئے اور وہاں بے ہوش ہو گئے۔ اُس کے بعد سے وہ ہسپتال میں کوما کی حالت میں وینیلیٹر پر ہیں۔
آج جمعہ 21 اگست کی صبح اپنے ایک ویڈیو پیغام میں یرمیش نے کہا، ”نوالنی کی حالت نازک ہے اور انہوں نے ہسپتال حکام سے کہہ دیا ہے کہ ناوالنی کی منتقلی کے لیے درکار ضروری کاغذات کی فراہمی میں رکاوٹ پیدا نہ کریں۔‘‘ یہ بات ابھی واضح نہیں ہوئی کہ یرمیش کی مراد کس قسم کی رکاوٹ سے ہے۔
ناوالنی کی پُراسرار علالت کی خبر عام ہوتے ہی روس کے دیگر اپوزیشن لیڈروں نے قیاس آرائیاں شروع کردی تھیں کہ اس واقعے میں کریملن کا ہاتھ ہے۔ پیوتر ورزیلوف روس میں حکومت مخالف ایک احتجاجی گروپ ‘ پُسی رائٹ‘ کے رکن ہیں۔ یہ خود 2018 ء میں مبینہ طور پر زہر دیے جانے کے ایک واقعے کے بعد انتہائی نگہداشت آئی سی یو میں داخل رہ چُکے ہیں۔ انہوں نے ایسو سی ایٹیڈ پریس کو بتایا، ”ہمیں یقین ہے کہ مجھے یا ناوالنی کو نشانہ بنانے کی صلاحیت محض روسی سکیورٹی سروسز میں ہے جنہیں یقینی طور پر روس کی سیاسی قیادت کی طرف سے اس کارروائی کی اجازت ملتی ہے۔‘‘ اُس وقت پیوتر ورزیلوف کا علاج بھی جرمنی میں کیا گیا تھا جس کا بندوبست ایک جرمن آرگنائزیشن ‘سنیما فار پیس‘ نے کیا تھا۔
اومسک برلن سے قریب چار ہزار دو سو کلو میٹر کے فاصلے پر مشرق کی طرف واقع ہے اور وہاں سے برلن کی فلائٹ کا دورانہ قریب 6 گھنٹے ہے۔ اومسک کے نمبر ون ہسپتال جہاں ماضی میں پیوتر ورزیلوف اور اب نوالنی داخل ہیں، وہاں کے ڈاکٹروں نے ناوالنی کیس کی تشخیص کے بارے میں سخت خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ان کی طرف سے کہا گیا ہے کہ وہ مختلف مفروضوں پر غور کر رہے ہیں جس میں زہر دیے جانے کا امکان بھی شامل ہے۔
ڈاکٹروں کے مطابق انہیں ناوالنی کے ہارٹ اٹیک، اسٹروک یا کورونا وائرس میں مبتلا ہونے سے متعلق کوئی اشارہ نہیں ملا ہے۔ ناوالنی کی ترجمان کیرا یرمیش کے مطابق ناوالنی کی اہلیہ کو حکام نے ابتدائی طور پر اپنے شوہر سے ملنے کی اجازت نہیں دی اور ناوالنی کی علاج کے غرض سے یورپی ہسپتال منتقلی کے لیے درکار دستاویزات فراہم کرنے کی درخواست کو بھی حکام نے مسترد کر دیا ہے۔
الیکسی ناوالنی کریملن، خاص طور سے روس کے صدر پوٹن کے شدید مخالف مانے جاتے ہیں اور انہوں نے روس میں حکومتی سطح پر کرپشن کے خلاف مہم میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سن 2011 کےانتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کرنے پر انہیں پہلی مرتبہ گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں پندرہ روز کے لیے جیل میں رکھا گیا تھا۔