جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی میں حالیہ دنوں میں ایک بار پھر سے کووڈ 19 کے کیسز میں زبردست اضافہ دیکھا گیا ہے اور اس بڑھتے انفیکشن کے لیے نجی تقریبات کو ذمہ دار مانا جا رہا ہے۔
جرمنی کی وفاقی حکومت کورونا وائرس کے بڑھتے کیسز پر قابو پانے کی سلسلے میں پیر 24 اگست کو ریاستی وزراء صحت کے ساتھ ایک اہم میٹنگ کرنے والی ہے۔ اس میٹنگ میں بحث کا سب سے اہم موضوع پرائیوٹ پارٹیاں یا ایسی نجی تقریبات ہیں جن کے انعقاد سے ایک بار پھر جرمنی میں کورونا وائرس تیزی سے پھیلنے لگا ہے، حکام اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ کیا ایسی تقریبات پر پابندی کی ضرورت ہے یا پھر کچھ رہنما اصول وضع کرنے کا وقت ہے۔ بعض ریاستیں اس طرح کے اجتماعات پر وفاقی حکومت کی جانب سے پابندی عائد کرنے کی حامی ہیں تو بعض وہ ریاستیں جہاں یہ وبا سنگین نہیں ہے، اس کی مخالف ہیں۔
وفاقی وزیر صحت جینز اسپہن کا کہنا ہے کہ چونکہ حکومت کو اس بات کا علم ہوا ہے کہ جو لوگ چھٹیوں سے واپس آرہے ہیں یا پھر پارٹیاں کرتے رہے ہیں ایسے افراد کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بن رہے ہیں اس لیے اس موضوع پر ریاستی حکومتوں کے ساتھ بات چیت بہت ضروری ہے۔
پرائیوٹ پارٹیوں، بڑی تقریبات یا پھر ایسے دیگر پروگراموں میں کہاں اورکتنے لوگ ایک ساتھ شریک ہوسکتے ہیں اس حوالے سے بھی مختلف ریاستی حکومتوں کے ضابطے الگ الگ ہیں۔ مثال کے طور پر ریاست ہیمبرگ میں اس طرح کی پرائیوٹ پارٹیوں یا نجی تقریبات میں صرف 50 افراد کو جمع ہونے کی اجازت ہے جبکہ برلن میں ایسے پروگرام میں 500 افراد جمع ہو سکتے ہیں۔ جرمنی کی مقبول ترین ریاست نارتھ رائن ویسٹ فالیامیں اس طرح کی تقریب میں 150 افراد کے شرکت کی اجازت ہے۔
جرمنی میں کورونا وائرس کی انفیکشن کی شرح میں تیزی سے اضافے کے ساتھ ہی نجی و سرکاری محکمہ صحت کے حکام اور سیاست دانوں کی جانب سے ایسی پارٹیوں کے خلاف آوازیں اٹھنی شروع ہوگئی ہیں۔ برینڈن برگ ریاست کی وزیر صحت ارزولا نونیماکر نے ایک مقامی اخبار سے بات چیت میں کہا، پرائیویٹ پارٹیاں ایک بہت بڑا خطرہ ہیں۔ ایک دوسرے رہنما کا کہنا تھا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ موسم گرما کے آغاز کے بعد سے بعض لاپرواہ لوگوں نے اس وبا کو پھیلا دیا ہے۔
سوشل ڈیموکریٹک جماعت کے ساسکیہ اسکین کا کہنا تھا، ”ہم یہ خطرہ دوبارہ مول نہیں لے سکتے کہ ڈے کیئر سینٹرز اور اسکول دوبارہ بند کر دیے جائیں اور بچوں کو ہفتوں کے لیے گھروں پر رہنے پر مجبور کیا جائے، کیونکہ خاندانی سطح کی پارٹیوں کے حوالے سے نرم اصولوں کی وجہ سے انفیکشن کی شرح میں کافی اضافہ ہوچکا ہے۔”
جرمن دارالحکومت برلن میں بھی ایسی پرائیوٹ پارٹیاں غیر قانونی طور پر ہوتی رہی ہیں جس پر قابو پانے کے لیے حکومت نے تمام نائٹس کلبوں کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی محکمہ صحت کے حکام نجی اجتماعات کے حوالے سے وفاقی سطح پر ایک ملک گیر پالیسی وضع کرنے پر زور دے رہے ہیں۔
برلن کے وزیر صحت دلیک کلیسی کا کہنا تھا، ”اس وقت ہم بھی اسی پہلو پر غور و فکر کر رہے ہیں کہ چھٹیوں کے اوقات کے دوران رویہ اور نجی پارٹیاں انفیکشن کی شرح میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ اس لیے نجی تقریبات اور بڑے عوامی اجتماعات کے لیے ملکی سطح پر یکساں اصول و ضوابط وضع کرنا مقصد ہے۔”
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے ایک سروے کے مطابق ہیمبرگ، بیرمین، لوور سیکسونی اور رائن لینڈ پلاٹینیٹ جیسی ریاستیں اس سلسلے میں وفاقی حکومت کی پالیسی کی حمایت کریں گی۔
لیکن بعض ریاستوں نے اس طرح کی تقریبا ت کے لیے وفاقی سطح پر اصول و ضوابط وضع کرنے کے خلاف آواز بھی اٹھائی ہے۔
سکلس وِگ – ہولسٹین اور میکلن برگ ویسٹرن پومیرانیا جیسی ریاستوں، جہاں انفیکشن کی شرح کافی کم ہے، نے اس تجویز کی مخالفت کی ہے۔ سکلس وِگ – ہولسٹین کے ایک ترجمان کا کہنا تھا، ”پہلی نظر میں تو یہ ملک بھر میں یکساں حل فائدہ مند ثابت ہوتا دکھائی دیتا ہے، لیکن جرمنی بھر میں انفیکشن کے واقعات میں اضافے کی جو مختلف شرح ہے اس کا اس میں خاطر خواہ خیال نہیں رکھا جا سکتا۔”
بعض دیگر ریاستوں میں بھی حکام موجودہ عائد بندشوں میں مزید سختی کرنے کے لیے راضی نہیں ہیں۔ سنیچر کے رور جرمنی میں کورونا وائرس کے 2034 نئے کیسز درج کیے گئے ہیں جو اپریل کے بعد سے ایک دن میں اتنا بڑا اضافہ ہے۔ اس طرح اموات میں بھی اضافہ ہوا ہے جو مجموعی طور پر 9267 ہے۔