دیگر اشیائے خورد ونوش کی طرح حالیہ دنوں دودھ اور ڈیری مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے اور کم و بیش سو روپے کلو ہونے کے باوجود شہریوں کو خالص دودھ دستیاب نہیں ، بلکہ انہیں دودھ نما سفید زہر فروخت کیا جارہاہے۔ دودھ جو کہ اللہ تعالیٰ کی بیش قیمت نعمتوں میں سے ایک ، اور غذائیت کا خزانہ ہے۔ ایک گلاس خالص دودھ انسانی جسم کو پروٹین چکنائی،کاربوہائڈریٹ، کیلشیم، میگنیشم اور قیمتی وٹا من فراہم کرتا ہے۔ انٹرنیشنل معیار کے مطابق بھینس سے حاصل ہونے والے خالص دودھ میں نو فیصد فیٹ، چھ فیصد نمکیات اور 85 فیصد پانی جبکہ گائے اور بکری کے دودھ میں 3.5 فیصد فیٹ، 11.5 فیصد نمکیات اور 85 فیصد پانی موجود ہوتا ہے جو کہ انسانی صحت کے لیے انتہائی مفید ہے۔ مگر افسوس کہ انسان کے لالچ اور ہوس نے اس آفاقی نعمت کو بھی مضر صحت بنا دیا ہے ۔
آج دودھ فروش شہریوں کو مصنوعی، غیر معیاری و مضر صحت دودھ فروخت کررہے ہیں جس سے نوجوا ن نسل تباہ ،بوڑھے ،بچے ،خواتین خطرناک بیماریوں میں مبتلاہورہے ہیں۔ یہ سفید زہر انسان کو بلغم، قے، پیٹ درد، آنتوں کی خرابیوں، الرجی، تھکن ، جگر اور گردے کی خرابی ، اور کینسر جیسے ا مراض میں مبتلا کررہا ہے ۔ دودھ کے ٹیٹرا پیک سمیت کیمیکل سے تیار شدہ دودھ سے شہری اور معصوم بچے مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ ملاوٹ و معیارکی اس سنگین صورتحال پر ماضی میں جب پاکستان سپریم کورٹ نے مضر صحت دودھ کی فروخت کا سخت نوٹس لیا تھا تو خود پی سی ایس آئی آر لیبارٹری نے دودھ کے لئے گئے نمونوں کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے عدالت میں اعتراف کیا تھا کہ ٹیٹرا پیک دودھ فروخت کرنے والی کمپنیوں کے گیارہ میں سے نو نمونے ناقص اور مضر صحت پائے گئے ہیں۔لیبارٹری رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ دودھ کے نمونوں میں میٹل، گنے کا رس، سنگھاڑے کا پاؤڈر پایا گیا۔
دودھ کی فروخت کے نام پرمکروہ دھندہ کرنے والے عناصرنے محض پیسے کمانے کی خاطر اپنے گھروں میں دودھ کی مشینیں لگا رکھی ہیں۔ یہ بے ضمیر لوگ انتہائی سستے داموں غیر معیاری کھلاخشک دودھ خرید کر ایک کلو پاؤڈر میں 16سے18لٹر پانی ملا کر دودھ تیارکرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ دودھ کی مقدار کو بڑھانے، گاڑھا کرنے اور خالص شکل میں لانے کے لیے سرف، گھی، میٹھا سوڈا، چینی، سوڈیم کلورائیڈ، یوریا کھاد، بلیچنگ پاوڈر، پوٹاشیم ہائیڈرو آکسائیڈ، سوڈیم ہائیڈرو آکسائیڈ اور مکئی کا آٹا استعمال کرتے ہیں ، اور ایک من دودھ میں ایک پاؤ کھویا، سنگھاڑوں کا آٹا، اراروڑملاکر دودھ کی قدرتی مٹھاس اور ذائقہ برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح 2من بھینسوں کا دودھ حاصل کر کے غیر معیاری ذرائع سے10سے 12من دودھ میں تبدیل کردیا جاتا ہے، اورپھر یہ دودھ معروف ہو ٹلوں، بڑی بیکریوں اور مٹھائی کی دکانوں کے علاوہ رہائشی علاقوں میں چلر میں، اور گلی گلی گھر گھر فروخت کیا جاتا ہے۔ اس طرح خالص دودھ کی فروخت کے یہ دعویدار دو کلو دودھ کے ساتھ ایک کلو دودھ فری کا پیکیج بھی دیتے نظر آتے ہیں ۔ اس کے علاوہ بھینسوں کے دودھ میں اضافے کیلئے بھی انجکشن استعمال کیا جاتا ہے ۔ جو کہ کسی بھی میڈیکل سٹور سے20روپے میں باآسانی دستیاب ہوتا ہے، 50سی سی انجکشن کی2سی سی مقدار بھینس کو دے کر کسی بھی وقت بھینسوں سے مطلوبہ مقدار دودھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح ٹینکروں اور پلاسٹک کے ڈرموں کے ذریعے سپلائی کئے جانے والے دودھ کو زیادہ دیرتک محفوظ بنانے کے لئے اور ٹینکروں میں موجود بدبو کو ختم کرنے کے لئے کافور اور کیمیکل استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ ٹینکروں کے اندر صفائی پر بھی خاص دھیان نہیںدیا جاتا ۔ مگر تعجب کی بات ہے کہ ان عناصر کی حوصلہ شکنی میں حکومتی ادارے چشم پوشی اختیار کئے نظر آتے ہیں۔ اب کچھ عرصے سے پنجاب فوڈ اتھارٹی ملاوٹ مافیا کے خلاف اور اشیائے خورد و نوش کا معیار بہتر بنانے کے لئے حرکت میں آئی ہے جس کے جرمانوں کے بعد بیکریوں اور ہوٹلوں میں صحت و صفائی کا معیار کسی حد تک بہتر ہوا ہے لیکن ایسے غیر انسانی فعل پر ملاوٹ مافیا کو محض تھوڑا بہت جرمانہ یا عارضی طور پر ان کا کاروباربند کیا جاناکافی نہیں ، ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں عبرتناک سزائیں دی جائیں اور اس سلسلے میں مذید سخت قانون بنا یاجائے تاکہ انسانی زندگیوں سے کھیلنے والوں کا قلع قمع ہوسکے۔ اگر بددیانتی کی سزا سزائے موت مقررکردی جائے اور ایسے غیر انسانی فعل پر محض چند افراد کو تختہ دار پر لٹکادیا جائے تو بگڑے معاشرے کی صورتحال خود بخود ٹھیک ہوسکتی ہے ، بلاشبہ انسانی جانوں سے کھیلنے والے کسی رعائت کے مستحق نہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی ادارے دودھ فروخت کرنے والوں کے دودھ کے معیارکو چیک کریں اور مضر صحت دودھ فروخت کرنے والوںکیفر کردار تک پہنچائیں۔
Rana Aijaz Hussain
تحریر : رانا اعجاز حسین چوہان
ای میل:ranaaijazmul@gmail.com رابطہ نمبر:03009230033