متحدہ عرب امارات (اصل میڈیا ڈیسک) تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس امر کے قوی امکانات ہیں کہ خرطوم اور مناما متحدہ عرب امارات کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات استوار کر لیں گے۔
اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات معمول پر لانے کے متحدہ عرب امارات کے فیصلے پر امریکا کی خوش دلی اور بہت سی عرب ریاستوں کی طرف سے خیرمقدم کے باوجود کئی ممالک اس بارے میں نہایت محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو جو مشرق وسطیٰ کے دورے پر ہیں، نے پیر کو اپنے پُر امید بیان میں کہا کہ اسرائیل کے ساتھ ڈیل پر مزید عرب ممالک بھی دستخط کرنے والے ہیں۔ امریکی وزیر اسرائیل، سوڈان، بحرین اور متحدہ عرب امارات کے دورے کر رہے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس امر کے قوی امکانات ہیں کہ خرطوم اور مناما متحدہ عرب امارات کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات استوار کر لیں گے۔ یو اے ای اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والی تیسری عرب ریاست ہے۔
علاقائی ‘ہیوی ویٹ‘ سعودی عرب یو اے ای اور اسرائیل کے معاہدے کی مذمت کرتے ہوئے کہہ چکا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات اس وقت تک قائم نہیں کرے گا جب تک اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ معاہدے پر دستخط نہیں کرتا۔
بحرین اسرائیل اور یو اے ای کے مابین معاہدے کا خیرمقدم کرنے والا پہلا خلیجی ملک تھا۔ بحرین کے اسرائیل کے ساتھ غیر اعلانیہ رابطوں کی تاریخ 1990ء کے عشرے تک جاتی ہے۔ سیاست میں سب سے زیادہ اہمیت اس امر کو حاصل ہوتی ہے کہ کسی بھی دو ممالک کا مشترکہ دشمن کون ہے؟ پھر یہ دونوں ممالک مل کر مشترکہ دشمن کے خلاف متحد ہو جاتے ہیں۔ مناما حکومت ایران پر الزام عائد کرتی آئی ہے کہ وہ بحرین کی شیعہ مسلم آبادی کے ذریعے حکمران سنیوں کے الخلیفہ خاندان کے خلاف مظاہروں اور بغاوت کو ہوا دیتا آیا ہے۔ مناما اور ریاض حکومتوں کا گٹھ جوڑ بھی پرانا ہے۔ بحرین حکومت اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ سفارتی تعلقات سعودی عرب کی ‘ہاں‘ کے بغیر قائم نہین کرے گی۔
کنگز کالج لندن کے ایک لکچرار اور اسکول آف سکیورٹی اسٹڈیز کے محقق ڈاکٹر آندریاس کریگ کہتے ہیں، ”چونکہ سعودی عرب مشر ق وسطیٰ امن عمل میں تعطل کے دوران اسرائیل کے ساتھ براہ راست تعلقات قائم نہیں کر سکتا، اس لیے بحرین سعودی عرب اور اسرائیل کے مابین تعقات کی بحالی کے سلسلے کا ایک متبادل مرکز بن سکتا ہے۔‘‘
ادھر بحرین کی حکومت کے ایک ترجمان کے بیان میں رواں ہفتے فلسطینی مقاصد کے بارے میں سعودی جذبات کی بازگشت سنائی تو دی تاہم اس ترجمان نے کہا، ”مناما اپنے فیصلے اپنے قومی اور عرب اصولوں کے ساتھ ساتھ اپنی اسٹریٹیجک سکیورٹی کے مطابق کرتا ہے۔‘‘
سوڈانی اہلکاروں نے تاہم اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے بارے میں متضاد تبصرہ کیا ہے۔ مگر سوڈان کو متعدد عوامل اس سمت میں آگے بڑھنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ سوڈانی وزارت خارجہ کے ترجمان حیدر بداوی نے کہا کہ وہ اس ڈیل کے حق میں ہیں جبکہ وزیر خارجہ عمر جمال الدین نے کہا، ”سوڈانی حکومت نے کبھی بھی اس مسئلے پر کوئی بحث نہیں کی۔‘‘ اس بیان کے ساتھ ہی وزیر خارجہ نے وزارت خارجہ کے ترجمان کو فوری طور پر برطرف بھی کر دیا۔
سوڈان کی عبوری خود مختار کونسل کے سربراہ جنرل عبد الفتاح البرہان نے فروری میں یوگنڈا میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے ملاقات کی تھی۔ شدید معاشی بحران سے دوچار ملک سوڈان کو دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والے ملک کی حیثیت سے امریکی بلیک لسٹ سے ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں امریکا کے قریبی اتحادی اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا یقیناً سوڈان کے حق میں ہو گا اور خرطوم کو اس سے مدد مل سکتی ہے۔
سنزیا بیانکو، جو خارجہ تعلقات سے متعلق یورپی کونسل کی ایک ریسرچ فیلو ہیں، کہتی ہیں، ”سوڈان امریکی پابندیوں کے خاتمے کی شدید خواہش رکھتا ہے اور خرطوم پر متحدہ عرب امارات کا اثر و رسوخ بھی بہت زیادہ ہے۔‘‘