سلامتی کاؤنسل میں ایران پر پابندیوں سے متعلق امریکی مطالبہ مسترد

Kelly Craft

Kelly Craft

امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا کی کوشش تھی کہ اقوام متحدہ نے ایران پر ماضی میں جو پابندیاں عائد کی تھیں انہیں دوبارہ بحال کر دیا جائے تاہم سکیورٹی کاؤنسل کے بیشتر ارکان نے امریکی موقف کو مسترد کر دیا ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کاؤنسل نے امریکا کی جانب سے ایران پر تمام بین الاقوامی پابندیوں کو دوبارہ عائد کرنے کی متنازعہ کوششوں کو مسترد کر دیا ہے اور اس طرح اس مسئلے پر واشنگٹن اور بین الاقوامی ادارے کے دیگر اراکین کے درمیان پائے جانے والے اختلافات بھی اجاگر ہوگئے ہیں۔ سلامتی کاؤنسل کی صدرات اس وقت انڈونیشیا کے پاس ہے جس کا کہنا تھا کہ اس مسئلے پر کاؤنسل کے ارکان کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں اور امریکی موقف کو تائید نہیں حاصل ہے اس لیے امریکی مطالبے پر کارروائی نہیں کی جا سکتی۔

ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر 2015 کے جوہری معاہدے پر عمل نہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے 20 اگست کو یہ مطالبہ کیا تھا کہ ایران پر اس حوالے سے جو پابندیاں ماضی میں عائد تھیں انہیں پھر سے بحال کر دیا جائے۔ لیکن برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسے امریکا کے اتحادی ممالک، جو 2015 کے جوہری معاہدے کا حصہ تھے، نے اس تجویز کو اسی وقت مسترد کر دیا تھا۔

اقوام متحدہ کے پانچ مستقل رکن اور جرمنی نے ایران کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا اس میں کہا گیا تھا کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے سے باز رہے گا اور اس کے بدلے میں اس پر عائد بین الاقوامی پابندیاں ختم ہوجائیں گی۔ لیکن صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد دو برس قبل امریکا نے یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ معاہدے سے الگ ہونے کے بعد بھی اس کا اصرار اس بات پر ہے کہ جو پابندیاں ایران پر پہلے عائد تھیں انہیں دوبارہ عائد کیا جائے۔

اقوام متحدہ میں انڈونیشیا کے سفیر دیان تریانسیاہ دجانی کا کہنا تھا کہ 15 رکنی سلامتی کاؤنسل میں 13 ارکان نے اس کی مخالفت کی اور ڈومنیکن ریپلک کے علاوہ کسی نے بھی اس امریکی مطالبے کو تسلیم نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا، ”تمام ارکان سے رابطے کے بعد جو مکتوبات موصول ہوئے ہیں ان سے مجھ پر پوری طرح واضح ہوگیا ہے کہ صرف ایک ملک ہے جس کا اس پر ایک خاص موقف ہے باقی دیگر ارکان کی بڑی تعداد اس کی مخالف ہے۔”

لیکن امریکا نے اپنے موقف کی مخالفت پر سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ”دہشت گردوں کا ساتھ دینے” کے مترادف ہے۔ امریکی سفیر کیلی کرافٹ نے اس موقع پر امریکی موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ سلامتی کاؤنسل کے ارکان حوصلہ اور اخلاقی شفافیت کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا، ”مجھے اس پر صاف صاف کہنے دیجیے: اس معاملے پر ٹرمپ انتظامیہ محدود ساتھیوں کے ساتھ کھڑا ہونے سے خوف زدہ نہیں ہے۔ مجھے صرف اس بات پر افسوس ہے کہ کاؤنسل کے باقی ارکان اس معاملے پر راستہ بھٹک گئے ہیں اور اب وہ اپنے آپ کو دہشت گردوں کے ساتھ کھڑا ہوا پاتے ہیں۔ کاؤنسل میں ہماری یورپی ساتھیوں نے نجی طور پر پابندیاں اٹھانے پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں لیکن اس تشویش کے سد باب کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی۔”

فرانس کی نائب سفیر اینی گیجویئن کا کہنا تھا کہ چونکہ سلامتی کاؤنسل کے 13 ارکان نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ امریکا جب اس معاہدے کا حصہ ہی نہیں رہا تو پھر ماضی کی پابندیوں سے متعلق اس کا مطالبہ بے اثر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں جرمنی، برطانیہ اور فرانس جیسے یورپی ممالک کا موقف یہ ہے کہ معاہدے پر عمل درآمد سے متعلق بات چیت ہی واحد راستہ ہے اور جوہری معاہدے میں مذاکرات سے متعلق ایک میکنزم پہلے ہی سے موجود ہے جس کے تحت یکم ستمبر سے ویانا میں بات بھی ہونی ہے۔

اقوام متحدہ میں روس کی سفیر ویسلی نیبنزیا نے سلامتی کاؤنسل کے اس فیصلے کو سراہا ہے۔ انہوں نے کہا، ”میں توقع کرتی ہوں کہ امریکا کو حقیقت کا ادارک ہوا ہوگا اور وہ اب ایسا کوئی غیر قانونی راستہ اختیار کرنے سے باز رہے گا جس سے اقوام متحدہ کے مقاصد کے مطابق بامعنی نتائج نہ نکلتے ہوں۔”

اس مسئلے پر امریکا کی مخالف کرنے والے تیرہ ممالک میں امریکا کے برطانیہ، فرانس، جرمنی اور بیلجیم جیسے روایتی اتحادی ملک اور چین، روس، ویت نام، نائجر، سینٹ ونسینٹ اور گریناڈینز، جنوبی افریقہ، انڈونیشیا، ایسٹونیا اور تیونس شامل ہیں۔