سیدنا حضرت حسنین کریمین رضی اللہ عنہم سے دنیا میں بسنے والے ہر کونے میںرہنے والا مسلمان دل و جاں سے عقیدت و محبت کرتا ہے۔ جو بھی ان مبارک ہستیوں سے بغض رکھے اس کے ایمان میں شک ہو سکتا ہے۔وہ کامل ایمان والا ہرگز نہیں ہو سکتا۔احادیث مبارکہ کا اگر مطالعہ کیا جائے تویہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان سے محبت کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔جیسا کہ ان احادیث مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ پیارے نبیۖ کو ان سے بہت زیادہ محبت تھی۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسنین کریمین کی طرف دیکھ کر فرمایا: اے اللہ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما۔”(ترمذی)حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے حسن و حسین سے بغض رکھا، اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مبغوض ہو گیا اور جو اللہ کے ہاں مبغوض ہوگیا اسے اللہ تعالیٰ نے آگ میں داخل کر دیا۔”( حاکم)
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں کسی ضرورت کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اورآپۖ گھر سے باہر اس حال میں تشریف لائے کہ آپ اپنی گود میں کچھ اٹھائے ہوئے تھے اوراپنی چادر مبارک اوڑھے ہوئے تھے، میں جب اپنے کام سے فارغ ہوا تو عرض کیا: یہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر ہٹائی تو میں نے دیکھا کہ ایک جانب سیدناحسن رضی اللہ عنہ اور دوسری طرف سیدنا حسین رضی اللہ عنہ ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں۔ آپ بھی ان سے محبت فرمائیے اور جو ان سے محبت کرے تو اس کو اپنا محبوب بنالے۔”( ترمذی)
سیدنا حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن اور حسین کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: جس نے مجھ سے اور ان دونوں سے محبت کی اور ان کے والد سے اور ان کی والدہ سے محبت کی تو وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے ہی ٹھکانہ پر ہو گا۔”( ترمذی) حضرت شداد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز ادا کرنے کے لیے ہمارے ہاں تشریف لائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم حسن یا حسین کو اُٹھائے ہوئے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ہاں آ کرانہیں زمین پر بٹھا دیا پھر نماز کے لیے تکبیر فرمائی اور نماز پڑھنا شروع کر دی، نماز کے دوران حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لمبا سجدہ کیا۔ شداد نے کہا: میں نے سر اُٹھا کر دیکھا کہ وہ سجدے کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہیں۔ میں پھر سجدہ میں چلا گیا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا فرما چکے تو صحابہ نے عرض کیایارسول اللہ! آپ نے نماز میں اتنا سجدہ طویل کیا۔ یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ کوئی حکم الٰہی واقع ہو گیا ہے یا آپ پر وحی نازل ہونے لگی ہے۔ پھر آپ ۖ نے فرمایا: ایسی کوئی بات نہیں تھی مگر یہ کہ مجھ پر میرا بیٹا سوار تھا اس لیے مجھے سجدے سے اُٹھنے میں جلدی کرنا اچھا نہ لگا جب تک کہ اس کی خواہش پوری نہ ہوجائے۔(نسائی )
حضرت یعلیٰ بن مرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانے کی ایک دعوت میں نکلے، دیکھا تو حسین رضی اللہ عنہ گلی میں کھیل رہے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے آگے نکل گئے، اور اپنے دونوں ہاتھ پھیلا لیے، حسین رضی اللہ عنہ بچے تھے، ادھر ادھر بھاگنے لگے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کو ہنسانے لگے، یہاں تک کہ ان کو پکڑ لیا، اور اپنا ایک ہاتھ ان کی ٹھوڑی کے نیچے اور دوسرا سر پر رکھ کر بوسہ لیا، اور فرمایا: ”حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں، اللہ اس سے محبت رکھے جو حسین سے محبت رکھے، اور حسین نواسوں میں سے ایک نواسہ ہیں” (ابن ماجہ)
ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حسنین کریمین رضی اللہ عنھم سے محبت کرنالازم ہے۔ بعض لوگ بغیر تحقیق کے ایک دوسرے پر فتویٰ بازی اور بے دھڑک الزام لگاتے ہوئے نظر آ رہے ہوتے ہیں،کہ فلاں شخص یا گروہ سیدنا حضرت حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کو نہیں مانتے، ان سے عقیدت و محبت نہیں کرتے وغیرہ۔ حالانکہ جو کوئی بھی نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جنتی نوجوانوں کے سردار کو نہیں مانتے وہ اپنے آپ کو کامل ایمان والے اور مومن مسلمان کیسے کہہ سکتے ہیں؟ یہ ہمارے لیے بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے۔کہ اس پُر فتن دور اور معاشرے میں ہمیں سب اختلافات کو پس پشت ڈال کر اتفاق و اتحاد کی بات کرنی چاہیے۔ہمیں معاشرے میں ایسی باتیں چھوڑ دینی چاہیے جن سے فرقہ واریت کو فروغ ملے اور وطن عزیز” اسلامی جمہوریہ پاکستان” میں افراتفری کی کیفیت پیدا ہو کیونکہ نفرتیں تو پہلے ہی بہت ہیں معاشرے میں اصل جو کام ہے کرنے والا وہ کریں یعنی ان کی تعلیمات، عقائد، منہج اور شب و روز کو اپنائیں جو اصل اپنانے والی چیز ہے اور اسی میں ہماری دنیا و آخرت میں کامیابی ہے۔ ان شاء اللہ