کابل (اصل میڈیا ڈیسک) افغان صدر اشرف غنی نے طالبان مزاحمت کاروں سے معاہدے کے لیے ایک بااختیار اعلیٰ قومی مصالحتی کونسل تشکیل دی ہے۔یہ کونسل طالبان سے حکومت کے مذاکرات کے بعد طے پانے والے کسی امن معاہدے پر دست خط کی ذمے دار ہوگی۔
افغان صدر نے ہفتے کی شب ایک فرمان جاری کیا ہے،اس کے تحت انھوں نے اپنے سابق حریف اور اب اقتدار میں شراکت دار عبداللہ عبداللہ کے زیر قیادت چھیالیس ارکان پر مشتمل مصالحتی کونسل قائم کی ہے۔ یہ کونسل مارچ میں اعلان کردہ افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم سے الگ ہے۔
طالبان اور اس سرکاری مذاکراتی ٹیم کے درمیان ستمبر میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بات چیت متوقع ہے۔ حکومتی ٹیم طالبان سے مذاکرات میں جن نکات پر اتفاق کرے گی، انھیں پھر حتمی غور اور منظوری کے لیے مصالحتی کونسل کو پیش کیا جائے گا۔
اس نئی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ افغانستان میں گذشتہ سال منعقدہ صدارتی انتخابات میں اشرف غنی کے حریف تھے اور انھوں نے بھی خود کو فاتح صدر قرار دیا تھا لیکن مئی میں انھوں نے صدر اشرف غنی سے شراکت اقتدار کے ایک سمجھوتے پر دست خط کیے تھے اور اقتدار میں شامل ہوگئے تھے۔
اب ان کے زیر قیادت افغانستان کے مختلف سیاسی دھڑوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات اور سابقہ اور موجودہ سرکاری عہدے داروں کو نئی اعلیٰ کونسل برائے قومی مصالحت میں شامل کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ نو خواتین کو بھی اس میں نمایندگی دی گئی ہے اور ان میں سے ایک کو کونسل کی نائب سربراہ بنایا گیا ہے۔
اشرف غنی نے اپنے پیش رو سابق صدر حامد کرزئی کو بھی اس کونسل کا رکن نامزد کیا تھا لیکن انھوں نے اتوار کو ایک بیان میں حکومت کے کسی ڈھانچے کا حصہ بننے سے انکار کردیا ہے۔
اس کونسل میں سابق سوویت یونین کے خلاف 1980ء کے عشرے میں جنگ لڑنے والے افغان لیڈر بھی شامل ہیں۔ان میں حزبِ اسلامی کے سربراہ اور سابق وزیراعظم گلبدین حکمت یار بھی شامل ہیں۔انھوں نے 2016ء میں صدر اشرف غنی سے ایک امن سمجھوتے پر دست خط کیے تھے۔انھیں امریکا نے دہشت گرد قرار دے رکھا تھا لیکن افغان حکومت سے ڈیل کے بعد ان کا نام دہشت گردوں کی فہرست سے نکال دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ طالبان اور امریکا کے درمیان 29 فروری کو دوحہ میں جنگ بندی کا سمجھوتا طے پایا تھا۔ اس میں افغانوں کے درمیان امن بات چیت کے لیے بعض شرائط وضع کی گئی تھیں۔ ان کے تحت افغان حکومت گذشتہ مہینوں کے دوران میں قریباً پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کرچکی ہے۔اس کے جواب میں طالبان نے بھی افغان سکیورٹی فورسز کے قریباً ایک ہزار اہلکاروں کو رہا کردیا ہے۔تاہم خیر سگالی کے ان اقدامات کے باوجود جنگ زدہ ملک میں تشدد کے واقعات میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے اور طالبان جنگجوؤں اور افغان سکیورٹی فورسز نے ایک دوسرے پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔