ہماری قوم کسی بھی اجتماع پر اکٹھی ہو خواہ سیاسی نوعیت کا ہو دینی جماعتوں کا ہو سیاسی جماعتوں کا پڑھے لکھے تبدیلی کے حامیوں کا ہو یا پھر سادہ پرانے سیاسی کارکنان کا ہو یا پھر شادی بیاہ کی تقریبات ہوں “”روٹی کھل گئی ہے “” یہ جملہ نجانے کیا مقناطیسی کشش رکھتا ہے میری قوم دیوانہ وار اس جانب چلتی نہیں باقاعدہ دوڑتی ہے اور اس میں عمر کی کوئی تفریق نہیں بچے بوڑھے جوان کیا مرد کیا عورتیں دونوں جانب کوئی فرق نظر نہیں آتا گھر سے بچوں کو مائیں سمجھا کر لاتی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ گوشت ہی کھانا ہے پلیٹیں یوں بھری ہوتی ہیں جیسے پہاڑ ہوں اب کھا کھا کر ان کو سر کرنا ہے اور پلیٹوں میں موجود وافر مقدار میں ڈالا گیا کھانا بعد میں منوں کے حساب سے کچرے میں پڑا ہماری بے حسی کا ماتم کرتا دکھائی دیتا ہے یاد رکھیں ہر شادی متمول طبقے کی نہیں ہوتی ہر شادی کا کھانا بھی آسانی سے نہیں بنوایا جاتا برادری کیا کہے گی بارات لے کر آنے والوں کی عزت کیلیۓ وہ کھانے سجائے جاتے ہیں جو بیٹی والوں نے شائد کبھی خواب میں بھی نہ کھائے ہوں ایک ایک خرچ کیلئے دن رات فکر کرنا پھر عزت سے مکمل ہو کر شادی تکمیل کو پہنچے اس کی دعائیں الگ مگر انکی محنت اور انکی فکر لوگ آتے ہیں یوں ہوا میں اڑا دیتے ہیں کہ نعمتوں کی بہتات میں یہی مناظر ہمیں یورپ میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں شادی کےکھانے کے بعد کا منظر بالکل پاکستان کی یاد دلاتا ہے جو ہر با شعور انسان کو تکلیف دیتا ہے مائیں دھڑلے سے ایک چھٹانک کے بچے کو ایک کلو گوشت مالِ مفت سمجھ کر پلیٹ میں ضائع کرنے کیلئے ڈال دیتی ہے اگر ہم کچھ احساس کے ساتھ یہ سوچ کر کھانے کو پلیٹ میں مناسب انداز میں ڈالیں کہ بے تحاشہ ڈالنے سے کہیں کھانا کم نہ ہو جائے بیٹی کی شادی ہے والدین کو پریشانی نہ ہو چھینا جھپٹی اور بےصبری ہمیں عجب تماشہ بنا دیتی ہے صبر سکون اور انتظار ہم نے چھوڑ دیا بے صبری بے سکونی انتشار اور جھپٹنے کو شعار بنا لیا یہ وہ نقصان دہ عادات ہیں جو اس تیز رفتار اور ترقی یافتہ زمانے کی نعمتوں کی بہتات نے ہمیں تحفة دی ہیں پڑھے لکھے ان پڑھ معززین اور سادہ لوح اس وقت سب کو کھانے پر ٹوٹ پڑو بس یہ یاد رہتا ہے آئیے زندگی کا ایک اور رخ ملاحظہ کریں یہ بات سو فیصد سچ لکھ رہی ہوں اور یہ منظر اپنی آنکھوں سے ایک نہیں دو بار دیکھا ہے اور حیرت زدہ ہوئی ایک بلی جسے جانور کہتے ہیں جو انسانی تعلیمات سے عاری بے شعور ہے اس بلی کے چار ننھے منے بچے ہیں دو ماہ کے بچے ایک جیسی جسامت اور ایک جیسی پیاری ادائیں اور ان پر کینہ توز نگاہوں سے آنے جانے والے کو گھورتی بلی ماں کی نگاہیں ایک دن عجیب معاملہ ہوا جس کی وجہ سے یہ لکھنا پڑا بلی تو ماں ہے وہ تو بچے کو کھانے دے خود بھوکی رہ لے بات سمجھ آتی ہے لیکن چھوٹے بچے وہ بھی یوں کھانے سے بے پرواہ بہت حیرت ہوئی ساتھ ہی ساتھ روٹی کھل گئی جے یہ نعرہ اور منظر آنکھوں کے سامنے آ گیا ہوا یہ کہ ایک دن بلیوں کو کھانا دینا تھا عموما یہ سب بلی اور بچے اکٹھے گھر میں داخل ہوتے ہیں اہل خانہ کو میاؤں میاؤں کی آواز بتا دیتی ہے دودھ اور کھانا برتنوں میں ڈال کر انہیں پیش کیا جائے اس دن مچھلی کے صرف دو ٹن تھے اور بلی بمعہ دو بچوں کے تشریف لا چکی تھی اہل خانہ نے سوچا اگر دونوں ٹن ابھی کھول دیتے تو بعد آنے والے دونوں بچے بھوکے رہ جاتے لہٰذا ایک ہی ٹِن کھول کر انکے برتن میں ڈال دیا یہ کھانا ان تین کیلئے کم تھا جھٹ پٹ بھوکے بچوں اور ماں نے ٹِن ختم کر دیا وہی ہوا کچھ دیر بعد باقی دو بچے آ گئے لگے بار بار برتنوں کو سونگھنے اہل خانہ نے دوسرا ٹن کھولا اور برتن میں ڈال دیا سبحان اللہ ناقابل یقین منظر بلی اور اس کے بچے باوجود بھوک کے اپنی جگہہ سے ٹس سے مس نہیں ہوئے ماں کے برابر بیٹھ گئے بعد والے بچوں نے سکون سے اپنا کھانا ختم کیا اہل خانہ حیران تھیں کہ یہ کیا ماجرہ ہے ؟ اگر یہ معاملہ انسان کے بچوں کے درمیان ہوتا تو ضرور ایک دوسرے کے کھانے پر جھپٹتے بھی اور چھینتے بھی یہ معاملہ ایک نہیں دو بار ہوا اور میں بھی دیکھ رہی تھی مجھے بلی کے صبر پر اور بچوں کے سکون سے بیٹھنے پر ازحد حیرت ہوئی میرے ذہن میں انور مقصود کی نظم کا مصرعہ گونجتا رہا “”سنا ہے جنگل کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے “” دستور کی ایک شق تو آنکھوں سے دیکھ لی اللہ کرے کہ اس کو لکھنے کا مطلب سب سمجھ پائیں اور آئیندہ کیلئے ہم میں قربانی اور احساس نامی جذبہ پیدا ہو جائے جسے ہم دنیا کی نفسا نفسی کی نذر کر چکے ہیں انسانیت بے صبری کی وجہ سے اپنے اعلیٰ منصب کو کھونے کی طرف جا رہی ہے بطور امت ہماری ذمہ داریاں تو دوسروں کو راہ راست پر لانا ہے ہم فرائض بھول کر کھانے سے پیٹ کو بھرنے لگے روح کی تشنگی نے انجام سے ہی غافل کر دیا لالچ کا تو مومن کیلئے کوئی راستہ ہی نہیں دینے والا امتی آج بھوک کا اتنا حریص ہو گیا کہ غذا تو کھانے کیلئے تھی لیکن غذا کی کثرت آج انسان کو کھانے لگی فتوحات اسلام پڑہیں تو نیک متحرک وجود اسلام کی بقا کی جنگ میں بھوکے رہ کر کامیاب تھے بے حس ہونے کویہ ایک بلی کافی ہے میرے لئے تو بہت بڑا سبق ہے ہم اس رحمت اللعالمین کے امتی ہیں جو بھوکے پیٹ پر پتھر باندھ کر صبر کی جیتی جاگتی اعلیٰ مثال تھے پیارے نبیﷺ فرماتے تھے کہ کافر دو آنت سے کھانا کھاتا ہے اور مومن ایک آنت سے کھاتا ہے مطلب بہت گہرا ہے کہ کافر احساس سے عاری ہے کھائے ہی چلا جاتا ہے
جبکہ ایک مومن اسلام کی قربانی کی صفت اور احساس کی وجہ سے محتاط انداز سے مناسب کھاتا ہے ایک چھوٹے سے بے ضرور جانور کی زندہ مثال پڑھ کر آج اپنے خوابیدہ احساس کو جگائیں اور جنگل کی باسی سے سیکھ کر اپنے سچے رب کا وہ عظیم دستور کھول لیجیۓ الکتاب کو کھول کر ترجمہ سے پڑہنا شروع کر دیں یہ دستور جب ترجمے سے سمجھ آئے گا مروت لحاظ رواداری عاجزی احساس قربانی کا جزبہ سب واپس آجائے گا پیارے نبی کے محترم امتیو الکتاب سے مزید دوری کی اب کوئی گنجائش نہیں ہے آئیے قرآن مجید کے ترجمے سےزندگی بدل لیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے قائم کردہ کامیابی کے قوانین پر مبنی دستور خود بھی پڑہیں آگے بھی پھیلائیں ہر ایک کی توجہ ۔۔ الکتاب۔۔ کی طرف مائل کریں ایک بار ترجمہ دل میں اتر گیا تو یہ انسان کو تراش خراش کر اس کے دل کو گہری تاریکی سے نکال کر ایمان کی شعاعوں سے بقعہ نور بنا دے گا الکھف 17 ۔۔۔۔جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت یاب ہے اور جس کو وہ گمراہ کرے تو تم اس کیلئے کوئی دوست راہ بتانے والا نہ پاؤ گے ۔۔۔۔۔۔۔ آئیے راہ پالیں خود بھی سنور جائیں اور اپنی نسلوں کو اس قرآن کے دستور پڑھ کر زندگی سنوار کر آخرت نکھار لیں اللہ کو راضی کر لیں سوچیں جنگل کے باسیوں کے دستور ہوں اور اشرف المخلوق انسان کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسان کو دستور نہ سکھائے ہوں؟