اسرائیل (اصل میڈیا ڈیسک) متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کرنے فیصلے کے بعد اسرائیل کی پہلی کمرشل پرواز ابو ظہبی پہنچ گئی۔
فلائیٹ El Al – 971 نے اسرائیل کے بانی اور پہلے وزیراعظم بن گوریان کے نام سے منسوب ایئرپورٹ سے ٹیک آف کیا۔ تل ابیب سے اڑنے والی اس پرواز پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور سینیئر مشیر جیرڈ کشنر اور اسرائیل کے قومی سلامتی کے مشیر میئر بن شبّات سوار تھے۔
اس موقع پر جیرڈ کشنر نے کہا کہ یقیناﹰ یہ ایک تاریخی پرواز ہے لیکن ”اس سے بھی کہیں زیاہ ہمیں امید ہے کہ یہ مشرق وسطٰی کے لیے ایک تاریخی سفر کا آغاز ہے۔‘‘
ایک ٹوئیٹ میں اسرائیلی وزیراعظم بينجمن نيتن ياہو نے اس پرواز کو ’’امن کے بدلے امن‘‘ کی ایک مثال قرار دیا، جس سے ان کے اس روایتی موقف کی عکاسی ہوتی ہے کہ پڑوسی عرب ممالک سے دوستی کے لیے لازمی نہیں کہ اسرائیل مقبوضہ فلسطینی علاقے واپس کرے۔
مصر اور اردن کے بعد متحدہ عرب امارات اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والا تیسرا عرب ملک بن چکا ہے۔ امریکی ثالثی میں طے پانے والی ڈیل کے تحت جواب میں بينجمن نيتن ياہو نے غرب اردن میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کا اپنا فیصلہ مؤخر کرنے کا اعلان کیا۔
فلسطینی رہنماؤں نے متحدہ عرب امارت کے اس فیصلے کو فلسطینی کاز کے ساتھ دھوکہ قرار دیا ہے۔ ایران نے اس پر سخت نکتہ چینی کی جبکہ ترکی نے بھی اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات ہونے کے باوجود اس ڈیل پر تنقید کی۔
پاکستان نے متحدہ عرب امارت پر اپنے اقتصادی انحصار کے باعث نہایت محتاط ردعمل دیا اور کہا کہ اس فیصلے کے ”دور رس اثرات‘‘ نکلیں گے تاہم پاکستان ”فلسطینیوں کے حق خودارادیت اور خطے میں امن، سلامتی اور استحکام‘‘ کو سامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھے گا۔
اسرائيلی وزير اعظم بينجمن نيتن ياہو کا کہنا ہے کہ مزید عرب ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے خفیہ بات چيت جاری ہے۔
نيتن ياہو نے اتوار 30 اگست کو اپنے ايک بيان ميں کہا کہ اس حوالے سے عرب اور مسلم ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ کئی ملاقاتيں ہو چکی ہیں يا ہونے جا رہی ہیں۔