بیلاروس (اصل میڈیا ڈیسک) یورپی یونین میں شامل تین بالٹک ممالک لیتھوینیا، لیٹویا اور اسٹونیا نے پڑوسی ملک بیلاروس کے صدر لوکا شینکو کے خلاف سفری پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
یہ پابندیاں صدر الیکسانڈر لوکاشینکو کی طرف سے نو اگست کے صدارتی انتخابات میں مبینہ دھاندلی اور اس کے بعد عوامی مظاہرے کچلنے پر لگائی گئی ہے۔ پابندیوں کا اطلاق ان کے دیگر قریبی 29 اعلٰی افسران پر بھی ہوگا۔
یورپی یونین کے اندر بیلاروس کے پڑوسی ملک لیتھوینیا، لیٹویا اور اسٹونیا صدر لوکاشینکو کے مبینہ ‘آمرانہ‘ طرز حکمرانی پر سب سے زیادہ تنقید کرتے رہے ہیں۔
یورپ کی آخری آمریت بیلاروس کو یورپ کی آخری آمریت کہا جاتا ہے۔ صدر الیکسانڈر لوکاشینکو سن 1994 سے اس سابق سویت ریاست کے حاکم رہے ہیں۔ ان 26 برسوں میں صدر لوکاشینکو چھ بار انتخابات میں اپنے مخالفین کا تقریباﹰ مکمل صفایا کرتے ہوئے کامیاب ہوتے آئے ہیں۔
اگست کے انتخابات میں بھی سرکاری نتائج کے مطابق انہیں 80.1 فیصد ووٹ ملے جبکہ ان کی مدمقابل خاتون امیدوار سویٹلانا ٹیخانوسکایا کے حق میں صرف 10.12 فیصد ووٹ آئے۔ مبصرین کے مطابق ماضی کی طرح اس بار بھی کئی مقامات پر دھاندلی کا سہارا لیا گیا۔
یورپی یونین کے مطابق بیلاروس کے یہ انتخابات آزادنہ اور منصفانہ نہیں تھے۔ برطانیہ ان انتخابی نتائج کو مسترد کر چکا ہے۔ فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا کہ یورپی یونین کو چاہیے کہ وہ کھل کر حکومت مخالف مظاہروں کی حمایت کرے۔
جرمنی کے وزیر خزانہ اولاف شُلز نے صدر لوکاشینکو کو ایک ‘آمر‘ قرار دیا، جو ان کے مطابق لوگوں کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ یورپی یونین کے دیگر ممالک بھی صدر لوکاشینکو کے قریبی ساتھیوں اور سینئر حکام پر پابندیاں لگانے کے حق میں ہے۔
موجودہ بحران کو صدر لوکاشینکو کے لمبے دور حکمرانی کا سب سے بڑا چیلنج قرار دیا جارہا ہے۔ ایسے میں ان کا سب سے بڑا سہارا روایتی اتحادی ملک روس کے صدر ولادیمیر پوٹن ہیں۔ پچھلے چند ہفتوں کے دوران دونوں رہنماؤں کے درمیان متعدد بار مشاورت بھی ہوئی ہے۔
صدر لوکاشینکو کا اپنے مغربی ہمسایہ ممالک پر الزام ہے کہ وہ حکومت مخالف تحریک کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔
ماسکو نے صدر لوکاشینکو کے اس موقف کی تائید کی ہے اور خبردار کیا کہ اگر مغربی ممالک مداخلت سے باز نہ آئے تو روس بیلاروس سمیت چھ سابق سویت ملکوں کے فوجی اتحاد کو حرکت میں لا سکتا ہے۔
یورپی یونین نے صدر لوکاشینکو کے خلاف انسانی حقوق کی شکایت پر کئی سال پہلے بھی پابندیاں عائد کی تھیں لیکن پھر 2016 میں ان میں نرمی کر دی گئی تھی۔
اگست میں یورپی کمیشن کی صدر ارسلا فان ڈیئر لائن نے عندیہ دیا کہ یورپی یونین نے بیلاروس حکومت کے لیے جو رقم مختص کی تھی، وہ اب سول سوسائٹی، حکومتی کارروائیوں کی وجہ سے متاثرین اور کورونا وائرس کی وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے کیے جانے والے پروگراموں کو د ی جائے گی۔