کابل (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان کی نہ ختم ہونے والی جنگ کا ایک نیا محاذ کورونا کی وبا بھی ہے۔ اس کے سبب زندگی مزید مفلوج ہو کر رہ گئی تھی۔ اب لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد عوام میں خوش تو ہیں مگر خوف کے سائے میں۔
عشروں سے حالت جنگ میں رہنے والے افغان باشندوں کے لیے کورونا وائرس ایک نئے عذاب سے کم نہیں۔ لاک ڈاؤن نے افغان باشندوں کو مزید قفس میں بند کر رکھا تھا۔ جولائی کے وسط میں جیسے ہی حکومت نے لاک ڈاؤن میں نرمی کی عوام، خاص طور سے افغان نوجوان اپنی بیتابی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیر و تفریح کرنے لگے۔ کیا یہ راحت باقی رہے گی یا کورونا کی نئی لہر پہلے سے بھی سخت لاک ڈاؤن کا سبب بنے گی اور افغان شہریوں کو پہلے سے بھی زیادہ پابندیوں میں گھٹ کر رہنا پڑے گا؟
جولائی کے وسط سے افغانستان کے نسبتًا محفوظ علاقوں کے پارکس، سوئمننگ پولز، جمز ، شاپنگ مالز کی رونقیں واپس آنا شروع ہو گئیں۔ اب شادی ہالز بھی سجے نظر آ رہے ہیں اور اسکول اور یونیورسٹیاں بھی دوبارہ سے کھول دی گئی ہیں۔ کچھ لوگ ماسک پہنتے ہیں اور دیگر احتیاطی تدابیر بھی کرتے ہیں۔ حکام عوام کو دوسری لہر کے خطرے سے خبر دار کر رہے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جولائی کے ماہ میں لاک ڈاؤن کے بعد سے اب تک کورونا کیسز میں اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ اس سے ایک مہینے قبل یعنی جون میں روزانہ اوسطاً 50 تا 70 کیسز ریکارڈ کیے گئے۔ افغانستان کی وزارت صحت کے مطابق اب تک ملک بھر میں کورونا کے کُل اڑتیس ہزار دو سو کیسز ریکارڈ کیے گئے ہیں اور ان میں سے ایک ہزار چار سو کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی بیماری کووڈ انیس کا شکار ہو کر ہلاک ہو گئے۔ تاہم اصل تعداد ممکنہ طور پر اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
کابل سٹی پارک میں آيے والے شائقین کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔
اس بارے میں دارالحکومت کابل کے صوبائی گورنر اور کووڈ 19 کےسد باب کے لیے بنائی گئی کمیٹی کے سربراہ محمد یعقوب حیدری کا کہنا ہے کہ کورونا کی وبا دراصل لوگوں کی سمجھ سے کہیں زیادہ بڑا سانحہ ہے۔ انہوں نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ صرف کابل میں ہی،0008 کے قریب لوگ اس وائرس کی وجہ سے مر چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جس وقت کورونا کی وبا اپنے عروج پر تھی اس وقت ان کی ٹیم روزانہ 200 سے 700 اموات سے نمٹ رہی تھی۔ خاص طور پر مئی اور جون کے مہینوں کے دوران نئے قبرستانوں کو تیار کیا گیا تاکہ وہاں نئی قبریں بن سکیں۔انہوں نے کہا،”اس میں کوئی شک نہیں کہ وائرس اب بھی گردش کررہا ہے۔ حیدری کے مطابق چارملین سے زیادہ کی آبادی والے دارالحکومت کے 53 فی صد لوگ انفیکشن کا شکار ہوچکے ہیں۔‘‘ افغانستان کا صحت کا ٹوٹا پھوٹا نظام اس وائرس کے پھیلاؤ کے خطرات اور بڑھاتا ہے۔ یہاں اس قسم کی وبا کو کنٹرول کرنا بہت زیادہ مشکل ہے۔‘‘
وزارت صحت کے مطابق مجموعی طور پر پورے کابل کے دو ہزار سات سو ہیلتھ ورکرز، جن میں افغان۔ جاپان ہسپتال کے 40 بھی شامل ہیں، کووڈ انیس کے کا شکار ہو چکے ہیں اور ان میں سے 72 کارکن کووڈ انیس کی وجہ سے ہلاک بھی ہوگئے ہیں۔
مہینوں کے لاک ڈاؤن کے بعد کابل کے باشندے اب گھروں سے نکل کر تفریحی مقامات میں کچھ وقت گزارنے میں بڑی راحت محسوس کر رہے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں شہری کابل کے سٹی پارک کی طرف جاتے دکھائے دیتے ہیں۔ جہاں کا امیوزمنٹ پارک دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔ پارک میں ایک ریستوران ہے جو ایک پرانے مسافر طیارے میں بنایا گیا ہے۔ بچے بڑے شوق سے اس کے اندر جا کر سیٹوں پر بیٹھنا پسند کرتے ہیں۔
عبیداللہ رسولی گزشتہ ویک اینڈ پر اپنے دو بچوں کے ساتھ یہاں آئے ۔ اس پارک میں بہت ہجوم تھا مگر عبیداللہ کی طرح چند لوگوں نے ماسک پہن رکھا تھا۔ انہوں نے اس بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا،” بدقسمتی سے ہمارے ملک میں لاک ڈاؤن پر عملدرآمد موثر طریقے سے نہیں کیا گیا اور اب جب لاک ڈاؤن ختم ہوا ہے تو لوگ مناسب احتیاطی تدابیر کرنے میں ناکام نظر آ رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ گرچہ لوگوں کو گھومنے پھرنے کی آزادی ملنی چاہیے تاہم انہیں حفاظتی کٹس کا استعمال آنا چاہیے، ”کم سے کم انہیں ماسک پہننا چاہیے۔‘‘ کابل کے امیوزمنٹ پارک کے ڈائریکٹر حبیب اللہ کے بقول اس پارک میں تفریح کے لیے لگی ہوئی مشینوں اور ڈوجننگ کارز وغیرہ کو روزانہ تین سے پانچ بار صاف کیا جاتا ہے تب بھی کورونا وبا سے پہلے کے مقابلے میں یہاں آنے والے شائقین کی تعداد کافی کم ہے۔ اس کی وجہ کورونا تو ہے ہی ساتھ ہی ملک کی سکیورٹی کی صورتحال سے بھی افغان باشندے خائف ہیں۔